11

پرانے ٹائروں سے ’زلزلہ پروف‘ عمارتیں بنانے کا کم خرچ طریقہ

ایڈنبرا: دنیا بھر میں زلزلے سب سے زیادہ اور تیزی سے اموات پھیلانے والی آفات میں سے ایک شمار ہوتے ہیں۔ لیکن اب ایک سادہ ترکیب سے عمارتوں کو مؤثر انداز میں زلزلہ پروف بنایا جاسکتا ہے۔

ایڈنبرا نیپیئر یونیورسٹی کے پروفیسر ہوان برنل سانچیز اور ان کے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ زلزلے میں زیادہ تر اموات بلند عمارتوں کی ٹوٹ پھوٹ اور ان کے گرنے سے واقع ہوتی ہیں۔ اس لیے انہوں نے فالتو ٹائروں کے ربڑ کو کامیابی سے عمارتی سیمنٹ میں ملا کر ایسی عمارتیں تیار کی ہیں جو زمین بوس کردینے والی تھرتھراہٹوں (ارتعاشات) سے محفوظ رہتی ہیں۔

پروفیسر ہوان کے مطابق اگر پرانے ٹائروں کے ربڑ کو باریک پیسنے کے بعد اسے مٹی میں ملاکر عمارت کی بنیاد میں اس کی کچھ میٹر موٹی پرت بچھادی جائے تو عمارت زلزلے کے شدید دھچکوں کو برداشت کرسکتی ہے۔ اندازہ ہے کہ اس طرح زلزلے سے عمارت میں پیدا ہونے والے ارتعاشات میں 40 سے 80 فیصد تک کمی ہوجائے گی۔

اس سستی ٹیکنالوجی کے مقابلے میں رائج مہنگی ٹیکنالوجی اگرچہ زلزلوں سے بچاتی تو ہے لیکن اس کے استعمال سے خود عمارت کا خرچ کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔ اسی بنا پر یہ ٹیکنالوجی غریب ممالک کی پہنچ سے باہر ہے۔

اس مقصد کےلیے ٹائروں کا کچرا بہت مناسب رہتا ہے جو ہر سال ڈیڑھ کروڑ ٹن کی مقدار میں پیدا ہوتا ہے۔ ٹائروں کے ربڑ کو پیس کر اسے مٹی میں ملا کر زلزلے سے محفوظ عمارتیں نہایت کم خرچ پر تیار کی جاسکتی ہیں۔ اس کےلیے صرف یہ کرنا ہوگا کہ عمارت بناتے وقت اس کی بنیاد میں ربڑ اور مٹی سے ملی، ایک سے پانچ میٹر موٹی تہہ بنادی جائے اور اس پر عمارت اٹھائی جائے۔

اس طرح زمین کی بنیاد لچک دار ہوکر عمارت کو ہلائے گی لیکن عمارت گرنے سے بچ جائے گی۔ واضح رہے کہ عمارت کو جھنجھوڑنے والی لہریں زمینی سطح سے اوپر کی جانب منتقل ہوتی ہیں اور عمارت ٹوٹ پھوٹ سے گزرتے ہوئے گرجاتی ہے۔

اس ٹیکنالوجی کی آزمائش کے لیے اسے عمارت کے ایک بڑے اور حقیقی ماڈل پر آزمایا گیا ہے جس میں دنیا کی سب سے بڑے زلزلہ بنانے والے مشینی پلیٹ فارم (شیک ٹیبل) پر رکھی عمارت میں ارتعاشات کو نوٹ کیا گیا۔ حیرت انگیز طور پر ربڑ کی بنیادوں پر کھڑی یہ عمارت گرنے سےمحفوظ رہی۔

قبل ازیں 2009 میں ایک خاتون امریکی انجینئر ڈارسی ڈونووان ترقی پذیر ممالک میں زلزلے سے محفوظ اور کم خرچ مکانات بنانے پر کام کرچکی ہیں۔ اس مقصد کےلیے انہوں نے گارے میں خشک گھاس (پیال) ملا کر استعمال کی تھی۔ ان کا قائم کردہ ادارہ ’’پاکستان اسٹرا بیل اینڈ ایپروپری ایٹ بلڈنگ‘‘ گزشتہ آٹھ سال سے پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں زلزلے سے محفوظ اور کم خرچ مکانات تعمیر کررہا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں