6

ڈاکٹرز کی ٹیڑھی میڑھی تحریریں مریض پر منفی اثرات مرتب کرتی ہیں، ماہرین

لندن: ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈاکٹرز کی تحریر جتنی سادہ، صاف اور واضح ہو گی اتنا ہی مریضوں کے لیے مفید اور آسان ہوگی بصورت دیگر مریض پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

اکیڈمی آف میڈیکل رائل کالج کے مطابق بیماری میں مبتلا اور نقاہت کے شکار مریض دوا سے زیادہ توجہ اور اپنائیت کے طلب گار ہوتے ہیں۔ بیماری سے بوجھل ذہن و جسم کسی دوسری پریشانی کو اُٹھانے کے قابل نہیں رہتا لیکن عمومی مشاہدہ ہے کہ مریض ڈاکٹری نسخے کو دیکھ کر پریشان سے ہو جاتے ہیں۔

ٹیڑھے میڑھے نقش و نگار سے مزین نسخے میں اس کی تسلی کا کوئی سامان نہیں ہوتا بلکہ اسے پڑھنے اور سمجھنے کے لیے کیمسٹ کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ ڈاکٹری نسخے میں دوا کی خوراک اور مقدار کو بھی اطالوی زبان میں لکھ دیا جاتا ہے یعنی دن میں ایک بار کھانے والی دوا کے آگے OD، دو بار کھانے والی خوراک کو BD اور تین بار کھانے والی دوا کے آگے TDS لکھا جاتا ہے جب کہ صرف درد یا ضرورت پڑنے پر لینے والی دوا کے آگے SOS لکھ دیا جاتا ہے۔

اس الجھن کو دور کرنے کے لیے بار بار کیمسٹ کو تنگ کیا جاتا ہے اور معاملہ یہیں تک ہو تو کام چل جائے لیکن معمولی کھانسی اور نزلے کی علامات کو مریض کی ہسٹری میں ایسی الٹی سیدھی لکیروں سے لکھ دیا جاتا ہے کہ جس سے اچھا خاصا مریض بھی خود کو کسی موذی مرض میں مبتلا ہوتا ہوا دیکھنے لگتا ہے۔

تحریروں کا انسانی ذہن پر مثبت اور حوصلہ مند اثر ہوتا ہے۔ خوبصورت اور دلکش تحریر ذہن کو جلا بخشتی ہے اور مثبت سوچ کو پروان چڑھاتی ہے جب کہ بدنما تحریر خوف اور پست حوصلے کا موجب بنتی ہے۔ خوشنما تحریر طاقت ہے اور ذہن کو متحرک کرتی ہے۔

یہی وجوہات ہیں کہ اکیڈمی آف میڈیکل رائل کالج کے ماہرین نے ڈاکٹرز کو دوا تجویز کرتے ہوئے اور مرض کی ہسٹری لینے کے دوران تحریر کو سادہ اور آسان رکھنے کی ہدایت دی ہے جو نہ صرف مریضوں کو سمجھنے میں آسان رہے گی بلکہ مریضوں پر اس کے خوشگوار اثرات بھی مرتب ہوں گے۔

سادہ اور خوشنما تحریر سے ایک فائدہ یہ بھی ہوگا کہ مریض کو دوا کی خوراک لینے میں غلطی کا احتمال نہیں رہے گا کہ جب کہ مریض اپنے مرض سے متعلق ہسٹری سے بھی بغیر کسی مدد کے آگاہ رہے گا اور اس عمل سے مرض سے نمٹنے میں مدد ملے گی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں