8

ڈی پی او پاکپتن تبادلہ کیس: وزیراعلیٰ اور آئی جی نے غیرمشروط معافی مانگ لی

اسلام آباد: ڈی پی او پاکپتن تبادلہ کیس میں وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار سابق آئی جی پنجاب کلیم امام اور دیگر نے سپریم کورٹ میں پیش ہوتے ہوئے غیرمشروط معافی مانگ لی۔

چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار سابق ڈی پی پاکپتن رضوان گوندل کے تبادلے پر ازخود نوٹس کی سماعت کر رہے ہیں۔

عدالت کے طلب کیے جانے پر وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اور احسن اقبال جمیل پیش ہوئے، وزیراعلیٰ نے عدالت کے روبرو مؤقف اختیار کیا کہ وزیراعلیٰ بنے تیسرا دن تھا جب مانیکا فیملی اور پولیس کے واقعے کا علم ہوا۔

وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے کہا کہ چاہتا تھا معاملہ افہام و تفہیم سے حل ہو جائے جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا ‘آپ نے رات 10 بجے پولیس افسران کو طلب کیا؟’ وزیراعلیٰ پنجاب نے کہا کہ میں نے افسران کا حال احوال پوچھا اور ان کی خود چائے سے تواضع کی اور آر پی او سے کہا کہ اس معاملے کو خود حل کریں تاہم کوئی سیاسی دباؤ نہیں ڈالا۔

وزیراعلیٰ نے کہا کہ میرا کسی سے ڈی پی او پاکپتن کے تبادلے کے حوالے سے کوئی رابطہ نہیں ہوا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جب انکوائری ہوگی تو سارے رابطے سامنے آجائیں گے۔

وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اور احسن اقبال جمیل نے سپریم کورٹ سے غیر مشروط معافی مانگ لی جب کہ سابق آئی جی پنجاب کلیم امام نے خود کو عدالت کے رحم و کرم پر چھوڑتے ہوئے غیر مشروط معافی مانگی۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ جناب وزیراعلیٰ، احسن اقبال جمیل کو پولیس افسران کے سامنے بٹھانے کی کیا ضرورت تھی، یہ شخص کہتا ہے میں بچوں کا گارڈین ہوں اسے بتائیں قانون میں گارڈین کا کیا مفہوم ہے، والدین کی زندگی میں یہ کیسے گارڈین ہوسکتا ہے۔

چیف جسٹس نے وزیراعلیٰ پنجاب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا آپ کا افسر آر پی او کو کہتا ہے کہ صبح ڈی پی او کی شکل نظر نہ آئے۔

سابق آئی جی پنجاب نے عدالت کو یقین دلایا کہ آئندہ ایسا نہیں ہوگا جس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آپ کو انکوائری دی تو مجھے تنقید برداشت کرنا پڑی، آپ نے ہمارا اعتماد توڑا اور صحیح انکوائری رپورٹ نہیں دی۔

عدالت نے آئی جی کلیم امام کی رپورٹ مسترد کرتے ہوئے سینئر پولیس افسر خالد لک کو نئی انکوائری رپورٹ 15 دن میں پیش کرنے کا حکم دیا۔

آئی جی کلیم امام کی رپورٹ مسترد

مانیکا فیملی کو ناکے پر روکے جانے اور ڈی پی او کے تبادلے کے واقعے سے متعلق اس وقت کے آئی جی پنجاب اور موجودہ آئی جی سندھ کلیم امام نے رپورٹ بنا کر سپریم کورٹ میں پیش کی جسے عدالت نے آج مسترد کردیا۔

پاکپتن واقعے میں ‘سیاسی دباؤ’ کی کہانی، سابق آئی جی پنجاب کلیم امام کی زبانی

یاد رہے کہ سابق آئی جی پنجاب کلیم امام کی جانب سے جمع کرائی گئی رپورٹ میں وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی مداخلت انکوائری کے دائرہ اختیار سے باہر قرار دی گئی اور کسی کو قصور وار نہیں ٹہھرایا گیا۔

چیف جسٹس نے انسپکٹر جنرل پولیس کلیم امام پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ ‘ہم نے آپ پر اعتماد کر کے رپورٹ تیار کرنے کا حکم دیا تھا لیکن آپ نے بدنیتی سے رپورٹ بنائی، ہم نے لکھ دیا تو آپ پولیس میں نہیں رہیں گے’۔

چیف جسٹس نے کہا کہ رپورٹ میں سب اچھا کہا گیا، ہم نے معاملے کے سیاسی پہلو کی تحقیقات آپ پر بھروسہ کر کے سونپی لیکن آپ نے ہمارا اعتماد توڑا۔

چیف جسٹس نے آئی جی کلیم امام سے استفسار کیا ‘خود بتائیں آپ آئی جی بننے کے اہل ہیں، ایک شخص کو بچانے کے لیے آپ نے پوری پولیس فورس کو تباہ کردیا، احسن جمیل نے کس حیثیت میں ڈی پی او سے وضاحت مانگی، آپ کو رپورٹ لکھتے ہوئے شرم کیوں نہیں آئی’۔

چیف جسٹس نے کلیم امام کو بیج اتارنے کا حکم دیا اور کہا کہ ڈی پی او پاکپتن کا رات ایک بجے مشکوک انداز میں تبادلہ ہوا اور آپ کہتے ہیں کچھ ہوا ہی نہیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا ‘آپ نے کیا تحقیقات کی، آر پی او اور ڈی پی او کے بیانات آپس میں نہیں ملتے، آپ نے پولیس افسران کو وزیراعلیٰ پنجاب سے ملنے سے کیوں نہیں روکا’۔

وزیراعلیٰ پنجاب نے خاور مانیکا کو روکنے والے ڈی پی او کا تبادلہ کردیا

اس موقع پر آئی جی پنجاب نے کہا کہ جب مجھے پتہ چلا تو میں اسلام آباد میں تھا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ اسلام آباد میں تھے کسی دوسرے ملک میں تو نہیں تھے، وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے اپنے سامنے پولیس افسران کو زلیل کروایا، بلوائیں وزیر اعلیٰ پنجاب کو۔

چیف جسٹس نے آئی جی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کلیم امام آپ کو موقع دیا تھا لیکن آپ نے گنوا دیا، کام ایمانداری سے کیا یا نہیں یہ تعین عدالت کرے گی، اپنے دفاع کے لیے وکیل بھی کرلیں۔

جس کے بعد عدالت نے سماعت دوپہر 2 بجے تک کے لیے ملتوی کردی۔

کیس کا پس منظر

وزیراعظم عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے سابق شوہر خاور مانیکا کو ناکے پر روکنے والے ڈسٹرکٹ پولیس افسر (ڈی پی او) پاکپتن رضوان گوندل کا تبادلہ کردیا گیا تھا۔

ذرائع کے مطابق پولیس نے جمعرات 23 اگست کو خاور مانیکا کو ناکے پر رکنے کا اشارہ کیا مگر وہ نہ رکے، لیکن جب پولیس نے ان کی کار کو روکا تو انہوں نے غلیظ زبان استعمال کی۔

ذرائع کے مطابق واقعے کے بعد حکومت پنجاب نے ریجنل پولیس افسر (آر پی او) اور ڈی پی او رضوان گوندل کو جمعہ 24 اگست کو طلب کیا۔

چیف جسٹس نے ڈی پی او پاک پتن کے تبادلے پر ازخود نوٹس لے لیا

پولیس ذرائع کے مطابق اس موقع پر ڈی پی او رضوان گوندل کو خاور مانیکا کے ڈیرے پر جاکر معافی مانگنےکا حکم دیا گیا، تاہم ڈی پی او رضوان نے یہ کہہ کر معافی مانگنے سے انکار کردیا کہ اس میں پولیس کا کوئی قصور نہیں۔

ذرائع کے مطابق ڈی پی او رضوان کا ٹرانسفر خاور مانیکا کے ڈیرے پر جاکر معافی نہ مانگنے پر کیا گیا۔

اس معاملے پر حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے آر پی او اور ڈی پی او کو طلب کرکے دونوں افسران کو معاملہ ختم کرنے اور رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی تھی، تاہم رپورٹ نہ دینے پر انہیں عہدے سے ہٹایا گیا۔

معاملہ خبروں کی زینت بننے لگا تو چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے اس پر ازخود نوٹس لیا اور آئی جی پنجاب کو واقعے کی رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کی تاہم آئی جی کی رپورٹ میں کسی کو قصور وار نہیں ٹہھرایا گیا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں