7

امریکا ڈالر لینے یا امداد کی بات کرنے نہیں آیا، شاہ محمود قریشی

واشنگٹن: وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پاک-امریکا تعلقات میں بہتری کی امید کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ امریکا ڈالر لینے یا امداد کی بات کرنے نہیں آئے۔

امریکی ٹی وی فوکس نیوز کو دیئے گئے انٹرویو میں شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ‘میں یہاں ڈالر یا امداد کی بات کرنے نہیں آیا، میں یہاں پاکستان اور امریکا کے کشیدہ تعلقات میں بہتری کے لیے آیا ہوں، جس کا فائدہ دونوں ملکوں کو ہوگا۔ ہم کافی عرصے سے اتحادی رہے ہیں اور اب وقت ہے کہ مضبوط تعلقات کو دوبارہ اسے استوار کیا جائے’۔

پاکستانی قید میں موجود شکیل آفریدی کے معاملے پر وزیر خارجہ نے کہا کہ ‘اس حوالے سے امریکی ہم منصب مائیک پومپیو سے بات ہو سکتی ہے، لیکن شکیل آفریدی کا مستقبل سیاست سے نہیں بلکہ عدالت سے جڑا ہے’۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘شکیل آفریدی کو قانونی عمل کے بعد سزا دی گئی۔ جس طرح ہم امریکی قانون کا احترام کرتے ہیں، امریکا کو بھی کرنا چاہیے’۔

واضح رہے کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کو مئی 2011 میں ایبٹ آباد میں عالمی دہشت گرد تنظیم القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی امریکا کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد گرفتار کیا گیا تھا۔

سی آئی اے کا شکیل آفریدی کو فرار کرانے کا منصوبہ آئی ایس آئی نے ناکام بنا دیا

ان پر مبینہ طور پر ایک جعلی ویکسی نیشن مہم کے ذریعے اسامہ بن لادن کا سراغ لگانے میں امریکا کی مدد کرنے کا الزام عائد کیا گیا۔

بعدازاں 2012 میں ڈاکٹر شکیل آفریدی کو خیبر ایجنسی کے اسسٹنٹ پولیکل ایجنٹ کی جانب سے کالعدم تنظمیوں سے رابطوں اور ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزام میں 33 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی، جس کے بعد ان کو سینٹرل جیل پشاور منتقل کردیا گیا تھا اور رواں برس اپریل میں انہیں سیکیورٹی خدشات کے باعث نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا۔

امریکا میں بعض حلقوں کا خیال ہے کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کو پاکستان میں مناسب ٹرائل کا موقع نہیں دیا گیا اور انہیں قبائلی نظام کے تحت ‘غیر قانونی طور پر قید’ کیا گیا۔

کچھ حلقوں کا یہ بھی خیال ہے کہ شکیل آفریدی کی رہائی سے پاکستان اور امریکا کے درمیان کشیدہ تعلقات پر ‘ڈرامائی اثر’ پڑے گا۔

انٹرویو کے دوران وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اس بات کا اعتراف کیا کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات سرد مہری کا شکار ہیں اور ڈونلڈ ٹرمپ کے عہدہ صدارت سنبھالنے کے بعد سے پاکستان سے مسلسل دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے، لیکن یہ ناانصافی ہے کہ پڑوسی ملک افغانستان میں عدم استحکام کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرایا جائے۔

ان کا کہنا تھا، ‘جب آپ مشکل میں ہوتے ہیں تو آپ قربانی کے بکرے تلاش کرتے ہیں۔’

وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ ‘پاکستان، امریکا کی مدد اور معاونت کے لیے تیار ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ افغانستان میں امن اور استحکام ہمارے مفاد میں ہے’۔

پاک-امریکا تعلقات

پاکستان اور امریکا کے تعلقات رواں برس جنوری سے تناؤ کا شکار ہیں جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں لکھا تھا کہ ‘امریکا نے گزشتہ 15 برس میں احمقوں کی طرح پاکستان کو 33 ارب ڈالر امداد کی مد میں دیئے اور انہوں نے ہمیں جھوٹ اور دھوکے کے سوا کچھ نہیں دیا’۔

ٹرمپ نےپاکستان سےملکرکام کی ہدایت کی تھی، پیشرفت نہ ہونے پرمایوسی ہوئی،ایلس ویلز

گذشتہ برس دسمبر میں افغانستان کے دورے کے موقع پر امریکا کے نائب صدر مائیک پینس کا کہنا تھا کہ ‘دہشت گردوں کو پناہ دینےکے دن ختم ہوگئے، پاکستان کو امریکا کی شراکت داری سے بہت کچھ حاصل ہوگا، لیکن دہشت گردوں اور مجرموں کو پناہ دینے سے بہت کچھ کھونا پڑے گا’۔

اُسی ماہ نئی نیشنل سیکیورٹی حکمت عملی کا اعلان کرتے ہوئے بھی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نہ صرف پاکستان سے اپنی سرزمین پر دہشت گردوں کے خلاف ‘فیصلہ کن’ کارروائی کا مطالبہ کیا، بلکہ مالی امداد کا طعنہ بھی دے دیا۔

اس سے قبل گذشتہ برس اگست میں بھی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان، پاکستان اور جنوبی ایشیاء کے حوالے سے نئی امریکی پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے افغانستان میں مزید ہزاروں امریکی فوجیوں کی تعیناتی کا عندیہ دیا تھا اور اسلام آباد پر دہشت گردوں کی پشت پناہی کا الزام دہراتے ہوئے ’ڈو مور‘ کا مطالبہ کیا تھا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں