9

سپریم کورٹ کا بیرون ملک جائیداد رکھنے والے 20 لوگوں کو پیش کرنے کا حکم

سپریم کورٹ نے پاکستانیوں کے بیرون ملک اکاؤنٹس اور جائیدادوں کے معاملے پر کم از کم 20 لوگوں کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم دے دیا۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں بینچ نے پاکستانیوں کے بیرون ملک اکاؤنٹس اور جائیدادوں سے متعلق کیس کی سماعت کی، اس دوران چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر)، ڈی جی وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) اور گورنر اسٹیٹ بینک طارق باجوہ اور اٹارنی جنرل پیش ہوئے۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن نے کہا کہ ایک ہزار ارب کی جائیدادوں کی نشاندہی ہوگئی ہے، ان کو واپس لانا کس کی ذمہ داری ہے؟ ان میں سے 100 لوگوں کو عدالت میں حاضر کریں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کونسے 20 لوگ ایسے ہیں، جنہیں ہم طلب کرکے پوچھیں کہ یہ جائیدادیں کس طرح بنائیں، ہمیں لندن، دبئی اور دوسرے ممالک کے بارے میں معلومات چاہیئے۔

اس پر ڈی جی ایف آئی اے نے کہا کہ 150 لوگوں نے مانا ہے کہ ہماری جائیدادیں ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کہتے ہیں کہ 100 ارب کی جائیدادیں ہیں، اتنی رقم میں تو ہمارا ڈیم بھی بن سکتا ہے۔

دوران سماعت اٹارنی جنرل نے بتایا کہ بیرون ملک جائیدادوں کے حامل 894 افراد ہیں، اس معاملے میں کچھ پیش رفت ہوئی ہے، تاہم کچھ مزید وقت چاہیے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اگر قانون میں سقم ہے تو ترمیم کریں۔

اس پر ڈی جی ایف آئی اے نے کہا کہ 374 لوگوں نے یہ کہا کہ ہم نے جائیدادیں ظاہر کردی ہیں جبکہ 150 افراد نے ایف آئی اے کے تفتیشی افسر کو بیانات دیے۔

انہوں نے بتایا کہ 69 افراد کہتے ہیں کہ ٹیکس ریٹرن میں جائیدادوں کو ظاہر کیا ہے، 82 کہتے ہیں کہ جائیدادیں ہماری ہیں ہی نہیں۔

ڈی جی ایف آئی اے نے بتایا کہ بیرون ملک جائیدادوں والے ہیں، اکاؤنٹس والے نہیں، اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کب کارروائیاں کریں گے؟ جس پر ڈی جی ایف آئی اے نے کہا کہ حکومت کی اعلان کردہ ایمنسٹی کی وجہ سے 2 مہینے رک گئے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل حکومت کس چیز کا انتظار کر رہی ہے، آپ کو بندوں کی نشاندہی کرکے دے دی۔

جس پر چیف جسٹس نے کہا آپ 10 نمایاں لوگوں کو یہاں لے آئیں، اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ قانون کے مطابق ان افراد کو گرفتار نہیں کرسکتے، تاہم حکومت پاکستان نے اثاثے واپسی کا یونٹ قائم کر دیا ہے۔.

عدالت میں سماعت کے دوران گورنر اسٹیٹ بینک نے بتایا کہ یہ مقدمہ فروری میں لگا تھا لیکن اب پاکستان سے پیسہ باہر جانا بہت مشکل ہوگیا ہے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ بتائیں اس معاملے میں کیا کیا جاسکتا ہے، ہم مقدمہ نمٹا لیتے ہیں، پھر حکومت دیکھ لے۔

چیف جسٹس نے طارق باجوہ سے استفسار کیا کہ کیا عدالت قانون کے مطابق کسی کی بینک تفصیلات طلب کرسکتی ہے؟ اس پر طارق باجوہ نے کہا کہ وہ برانچیں پاکستان کے دائرہ کار میں نہیں آتیں۔

سماعت کے دوران گورنر اسٹیٹ بینک نے بتایا کہ برطانیہ کے ساتھ معلومات کے تبادلے کا معاہدہ یکم ستمبر سے موثر ہوا تھا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس معاہدے کے تحت اب تک کیا معلومات نکالی ہیں۔

دوران سماعت ایف آئی اے کی جانب سے پاکستانیوں کی بیرون ملک جائیدادوں سے متعلق ایک رپورٹ بھی پیش کی گئی۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ دبئی میں 894 جائیدادیں ہیں، جس میں 374 نے ایمنسٹی اسکیم سے فائدہ اٹھایا ہے جبکہ 150 افراد نے جائیدادیں ظاہر نہیں کی۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ 69 افراد نے ٹیکس ریٹرن ظاہر نہیں کیا جبکہ 82 افراد نے ملکیت سے انکار کیا ہے۔

اس پر چیف جسٹس نے وفاقی تحقیقاتی ادارے کو 20 افراد کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا اور سماعت یکم نومبر تک ملتوی کردی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں