17

میڈیا جرائم پیشہ افراد کیلئے گنگا جمنا

جعلی صحافتی تجربے کے سرٹیفکیٹ لگا کر این او سی لینے والوں پر 62،63کون لگائے گا
اخبار یا ٹی وی کھولنے والوں کی اکثریت دو لائن کی خبر بھی نہیں بنا سکتے لیکن صحافی کہلاتے ہیں

یہ 1986کی بات ہے جب مشرق گوجرانوالہ سے راقم نے ملک اکرم کی زیر نگرانی صحافت کا آغاز کیا ، ان وقتوں میں ایک سال میں کوئی ایک شخص اس شعبہ میں ملازمت کے لئے آیا کرتا تھا اور کئی کئی سال صحافت میں آنے والے اپنے سینئرز کو دیکھا کرتے تھے کہ پریس کانفرنس میں سوال کیسے کیا جاتا ہے اور بات کیسے کی جاتی ہے ،سب جانتے ہیں کہ صحافت ایک عظیم شعبہ ہے۔ شعبہ صحافت سے وابستہ افراد (صحافیوں) نے اپنے مفادات کو پس پشت ڈالتے ہوئے شب و روز محنت اور کاوشیں کرکے اسے بہت بڑا مقام دلوایا ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اس وقت شعبہ صحافت ترقی کی جس منزل پر پہنچ چکا ہے اب اس سے آگے اوپر جانے کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ تاہم اگر آج سے 25 سے 30 سال پیچھے چلے جائیں تو اخبارات اور اس سے ملحق افراد کی تعدادا تو بہت کم تھی البتہ وہ اپنے کام میں پختہ، تجربہ کار اور معیار پر پورا اترنے والے تھے۔معاشرے میں اس کی اہمیت اور افا دیت سے ہر ذی شعور بخوبی واقف ہے۔ صحا فت کو ریاست کا چوتھا ستو ن جبکہ معاشرے کی آنکھ اور کان کا درجہ حاصل ہے۔ عام آدمی کی آواز کو اعلی ایوانوں تک پہنچانے اور جلد انصاف کی فراہمی میں صحافت کا بڑا اہم کردار ہے۔
بد قسمتی سے یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ آج 90 فیصد شعبہ صحافت سے وابستہ افراد غیرصحافتی اور متعدد صحافیوں کے ستائے ہوئے اور ان سے تنگ آئے ہوئے ہیں۔ اس شعبہ سے وا بستہ اکثریتی افراد نے اپنے دو نمبر کاروبار کو تحفظ دینے کے لئے اس عظیم شعبہ کو ڈھال بنا رکھا ہے۔ اخبار شروع کرنے کے لئے جو این او سی درکار ہوتا ہے اس میں بنیادی شرط پانچ سال کا تجربہ لکھا ہوتا ہے لیکن کوئی بتا دے کہ اب اخباری مالکان نے جو جھوٹے حلف نامے لگائے ہیں ان پر 62یا 63کی شق لاگو نہیں ہوتی کیونکہ انہوں نے تمام تجربے کے سرٹیفکیٹ جعلی لگوائے ہوئے ہیں جو کہ کسی بھی وقت پکڑے جا سکتے ہیں سب کو معلوم ہے کہ بڑے بڑے شہروں میں پراپرٹی، سگریٹ کا کاروبار کرنے والے، کالج یونیورسٹیز، ڈیئری فارمز، کارخانوں، پیٹرول پمپس، ہوٹیلز ، فوڈ ملز کے مالکان اور ٹھیکیداران اسی طرح کرپٹ ریٹائرڈ سرکاری افسران اور یہاں تک کہ منشیات کا کاروبا ر کرنے والے اربوں پتی افراد نے صحافیوں سے تنگ آکر اپنے اخبارات اور چینلز بنالئے ہیں۔ بڑی شرم کی بات یہ ہے کہ یہ غیر صحافتی میڈیا مالکان ایک پریس ریلیز بھی اپنے ہا تھ سے نہیں لکھ سکتے۔ اتنا برا حال تو ملکی سطح پر ہے جبکہ علاقائی سطح پر تو اس سے بھی زیادہ براحال ہوا ہے۔
صحافت مذاق بن کر رہ گئی ہے، بڑے بڑے اخبارات کے اداروں میں نیوز پر بیٹھنے والے کمپیوٹر آپریٹرز ماہانہ لے کر خبروں کی اشاعت کرتے ہیں۔ صحافت کمزور اور غریب پڑھے لکھے افراد کی پہنچ سے باہر ہوچکی ہے۔ اخبارات، چینلز میں رپورٹرز بننے کے لیے تعلیم، تجربہ کریکٹر سرٹیفکیٹ کی تو ضرورت ہی نہیں ہوتی بلکہ وہاں تو صرف اور صرف پیسے کی بو لی لگتی ہے جو پیسے زیادہ دے وہیں نمائندہ بن جاتا ہے خواہ وہ چور، ڈاکو، رہزن، بدمعاش، سٹے باز یہاں تک کہ اگر کسی قبہ خانے کا دلال ہی کیوں نہ ہو اب یہ بات درست ثابت ہو رہی ہے کہ آج کل تو ریڑھی بان بھی صحافی بن چکے ہیں۔
بد قسمتی اور معذرت کے ساتھ آج اس وقت صحافت کا ہر جگہ یہی حال ہوا ہے۔ میری مراد ان صحافیو ں کے با رے نہیں جو آ ج بھی حق اور سچ کا علم بلند کئے ہو ئے عظیم شعبہ، شعبہ صحافت کے ما تھے کا جھومر ہیں بلکہ ان نا م نہاد شرفا اور نام نہاد معززین کے لئے ہے جو اپنے کالے کرتوتوں کو چھپانے کے لیے صحافت کا سہارا لیتے ہیں۔
جیسے ہندو اپنے گناہ، پاپ دھونے کے لئے گنگا جمنا میں اشنان کرتے ہیں اسی طرح یہ لوگ ناجائز کاروبار کو تحفظ دینے کے لئے صحافت کو گنگا جمنا بنائے ہوئے ہیں لیکن اب تو لگتا ہے کہ صحافت ان لوگوں کے گنا ہ دھوتے دھوتے خود ہی میلی ہوچکی ہے۔ اس حوالے سے حکومتی سطح پر بھی کوئی عملی اقدامات نہیں کیے جا رہے اگر اس حوالے سے جلد از جلد عملی طور پرکچھ نہ کیا گیا تو آ نے والے وقتوں میں پاکستان میں صحافت اور زیادہ پستی کا شکار ہوسکتی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں