9

حدیبیہ پیپر ملز فیصلے پر نیب کی نظر ثانی درخواست مسترد

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے حدیبیہ پیپر ملز ریفرنس دوبارہ کھولنے سے متعلق نظر ثانی درخواست کو مسترد کردیا۔

سپریم کورٹ کے جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس مظہر عالم پر مشتمل 3رکنی خصوصی بینچ نے نظر ثانی درخواست پر سماعت کی۔

سماعت کے دوران نیب پراسیکیوٹر عمران الحق کا کہنا تھا کہ اسحٰق ڈار نے سلطانی گواہ کے طور پر شہادت ریکارڈ کرائی تھی جسے ہائی کورٹ نے نظر انداز کیا تھا۔

جسٹس مشیر عالم نے نیب پراسیکیوٹر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ الزامات بتائیں کیا ہیں؟ جس پر عمران الحق نے بتایا کہ ملزمان پر آمدن سے زائد اثاثے بنانے کا الزام ہے۔

مزید پڑھیں: حدیبیہ کیس میں کب کیا ہوا؟ مکمل جائزہ

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں کیا غلطی ہے، جس پر نیب پراسیکیوٹر نے بتایا کہ اس فیصلے میں ملزمان کے خلاف فردِ جرم عائد نہیں ہوئی تھی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ یہ الزام تو 1992 کا ہے اور اس کا ریفرنس 2000 میں دائر ہوا جب ایک جرنیل کی حکومت تھی، اور اس وقت نیب پر سیاسی دباؤ بھی نہیں تھا۔

عدالت نے استفسار کیا کہ بتایا جائے کہ جرم کیا ہوا ہے، کیونکہ کرپٹ یا غیر قانونی کہنے سے کیا فرق پڑتا ہے، اسے ثابت کرنا ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایک مرتبہ پھر استفسار کیا کہ بیرون ملک فارن کرنسی اکاؤنٹ کھولنا کوئی جرم ہے جس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ کوئی جرم نہیں ہے۔

نیب پراسیکیوٹر نے بتایا کہ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیلیں 3 سال تاخیر سے دائر کی گئیں، جب عدالت نے ریفرنس ختم کیا اور اسحٰق ڈار نے بیان کو نظر انداز کیا، ملزمان کبھی عدالت میں پیش نہیں ہوئے، ان 2 چیزوں کی وجہ سے ہائی کورٹ کا فیصلہ درست نہیں تھا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ نے 2017 میں مقدمہ دوبارہ کھولنے کی درخواست کی تھی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے نیب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کوئی متعلقہ چیز پڑھیں گے یا ایسے ہی چیزیں پڑھتے جائیں گے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریماکس دیے کہ کوئی بھی نظیر پیش کرنے سے قبل بتایا جائے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں کیا غلطی ہے، اگر اسحٰق ڈار سب چیزیں مان بھی لیں تو اس کا کیس پر کیا اثر پڑتا ہے۔

جسٹس مظہرعالم میاں خیل نے ریمارکس دیے کہ نیب نے کئی سالوں سے مقدمہ لٹکائے رکھا ہے، کتنے سال ایک بندے کے سر پر تلوار لٹکا کر رکھیں گے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پانامہ فیصلے میں حدیبیہ کا نام نہیں، ہمارا نظر ثانی فیصلہ بہت واضح ہے، آپ ہمارے ذریعے پانامہ فیصلے پر نظر ثانی کروانا چاہتے ہیں۔

نیب وکیل نے حدیبیہ فیصلے میں مشرف ایمرجنسی اور پی سی او ججز کے حوالے سے پیراگراف پڑھا۔

نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ اس جملے کو حذف کر دیں جس میں لکھا ہے ’جنرل پرویز مشرف نے جمہوری حکومت ختم کی‘۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ’میرا خیال ہے آپ پرویز مشرف کے وکیل نہیں، نہ ہی یہ پرویز مشرف کی درخواست ہے تو اس پر آپ کو کیوں تکلیف ہو رہی ہے؟‘

جب آپ کہتے ہیں کہ جنرل (ر) پرویز مشرف نے نواز شریف کو ملک سے باہر بھجوایا تو پھر پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ درج کیوں نہیں کروایا گیا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 164 کے تحت بیانات سالوں سے ریکارڈ ہو رہے ہیں، سلطانی گواہ کا بیان مجسٹریٹ یا چیئرمین نیب کے پاس ریکارڈ نہیں ہو سکتا تھا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ نیب اپنے اعتماد کو کیوں تباہ کر رہا ہے، نیب نے ہی کہا تھا کہ ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے کی وجوہات تھیں۔

بعد ازاں عدالت نے نیب کی نظر ثانی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے کیس کی سماعت ملتوی کردی۔

سابق وزیر اعظم نواز شریف اور اسحٰق ڈار کے خلاف نیب نے ایک ارب 20 کروڑ روپے بد عنوانی کا حدیبیہ پیپر ملز ریفرنس 17 برس قبل جنرل (ر) پرویز مشرف کے دورِ اقتدار میں 2000 میں دائر کیا تھا، تاہم 2014 میں لاہور ہائی کورٹ نے یہ ریفرنس خارج کرتے ہوئے اپنے حکم میں کہا تھا کہ نیب کے پاس ملزمان کے خلاف ثبوت کا فقدان ہے۔

پاناما پیپرز کیس کی تحقیقات کے دوران سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) نے کیس کی تفتیش کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کو حدیبیہ پیپر ملز کیس کا ریکارڈ جمع کرایا تھا، جس میں 2000 میں اسحٰق ڈار کی جانب سے دیا جانے والا اعترافی بیان بھی شامل تھا۔

اسحٰق ڈار نے اس بیان میں شریف خاندان کے کہنے پر ایک ارب 20 کروڑ روپے کی منی لانڈرنگ کرنے اور جعلی بینک اکاؤنٹس کھولنے کا مبینہ اعتراف کیا تھا، تاہم بعد ازاں انہوں نے اپنے اس بیان کو واپس لیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ یہ بیان ان سے دباؤ میں لیا گیا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں