11

سپریم کورٹ نے وزیر اعظم کے زبانی حکم پر ہونے والا آئی جی کا تبادلہ روک دیا

اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے انسپکٹر جنرل ( آئی جی) اسلام آباد جان محمد کے تبادلے کا نوٹیفکیشن معطل کرتے ہوئے وفاقی حکومت سے 31 اکتوبر تک جواب طلب کرلیا

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ایک کیس کی سماعت کے دوران آئی جی اسلام آباد تبادلے کے معاملے کا نوٹس لیا اور پہلے سیکریٹری داخلہ کو طلب کیا جبکہ بعد میں سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ کو بھی عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا۔

معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سنا ہے کہ کسی وزیر کے کہنے پر آئی جی اسلام آباد کو ہٹایا گیا۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ قانون کی حکمرانی قائم رہے گی، ہم کسی سینیٹر، وزیر اور اس کے بیٹے کی وجہ سے اداروں کو کمزور نہیں ہونے دیں گے۔

بعدازاں چیف جسٹس نے سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ وقفے کے بعد سیکریٹری داخلہ بتائیں کہ آئی جی اسلام آباد جان محمد کو کیوں تبدیل کیا گیا۔

وفقے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا سیکریٹری داخلہ آئے ہیں؟ جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل ساجد الیاس بھٹی نے کہا کہ انہیں بلایا ہے وہ آرہےہیں۔

اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سیکریٹری داخلہ تمام ریکارڈ ساتھ لائیں اور بتائیں تبادلہ کیوں ہوا، ہم ریاستی اداروں کو اعتماد میں لینا چاہتے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ سارے معاملات سرکار پر نہ چھوڑیں، ایسے تبادلوں کو عدلیہ برداشت نہیں کرے گی، ایک تبادلہ پنجاب میں بھی ہوا ہے اور یہ تبادلہ چند دنوں میں ہوا ہے، اس حوالے سے اٹارنی جنرل آفس رپورٹ دے۔

اس موقع پر سپریم کورٹ نے آئی جی پنجاب اور آئی جی اسلام آباد کے تبادلے کا ریکارڈ طلب کرلیا اور ہدایت کی کہ سیکریٹری داخلہ کو کہیں کہ دونوں پولیس افسران کا ریکارڈ دیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ یہ بتایا جائے کہ یہ تبادلے کب ہوئے اور چند دن کی تعیناتیوں کے بعد آئی جیز کے تبادلے کیسے کردیے گئے۔

بعدازاں سیکریٹری داخلہ عدالت میں پیش ہوئے، دیر سے آنے پر عدالت نے ان پر برہمی کا اظہار کیا۔

سیکریٹری داخلہ نے بتایا کہ تبادلہ میں نے نہیں سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ نے کیا، جس پر چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ کو پتہ ہے کہ تبادلہ سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ نے کیا تو ان کو بھی بلوا لیتے ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا اب ہم یہاں بیٹھ کر انتظار کریں اور لُڈو کھیلیں۔

معزز چیف جسٹس نے سیکریٹری داخلہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو معلوم ہی نہیں کہ آپ کے آئی جی کا تبادلہ کردیا گیا، اسلام آباد کی پولیس کس کے اختیار میں آتی ہے؟ جس پر سیکریٹری داخلہ نے کہا کہ پولیس محکمہ داخلہ کے اختیار میں آتی ہے لیکن تبادلے کے وقت مجھ سے پوچھا نہیں گیا۔

اس دوران اٹارنی جنرل کی جانب سے عدالت سے درخواست کی گئی کہ وہ کیس کی سماعت ملتوی کریں، جس پر چیف جسٹس نے اسے مسترد کرتے ہوئے حکم دیا کہ سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ تمام مصروفیات ترک کرکے پہنچیں۔

عدالت کے طلب کرنے پر سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ پیش ہوئے اور عدالت کو آئی جی کے تبادلے کے بارے میں آگاہ کیا۔

دوران سماعت اٹارنی جنرل نے بتایا کہ وزیر اعظم کے زبانی احکامات پر تبادلہ کیا گیا، جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ تبادلے کی اصل وجہ کیا ہے؟ سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ خود عدالت کو حقائق بتائیں۔

اس پر سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ نے کہا کہ آئی جی کے تبادلے کا معاملہ کافی عرصے سے چل رہا ہے، وزیر اعظم آفس آئی جی کی کارکردگی سے مطمئن نہیں تھا۔

چیف جسٹس نے سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ سے مکالمہ کیا کہ کیوں نہ آپ کا بھی تبادلہ کردیا جائے، کیا آپ کو کھلا اختیار ہے جو چاہیں کریں؟ کیا آپ یہ نیا پاکستان بنا رہے ہیں؟

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ وزیر اعظم سے ہدایت لے کر جواب داخل کریں، سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ کا تبادلے میں کوئی کردار نہیں بنتا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پاکستان ایسے نہیں چلے گا بلکہ یہ ملک قانون کے تابع چلے گا، سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ اپنی حیثییت پہنچانیں، آپ ریاست کے ملازم ہیں، ایگزیکٹو جہاں غلطی کر رہے ہیں، اس کی نشاندہی کریں۔

اس موقع پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ جائزہ لیا جائے گا کہ تبادلہ بدنیتی پر مبنی تو نہیں۔

بعد ازاں سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت سے بدھ تک جواب طلب کرلیا، ساتھ ہی ریمارکس دیے کہ تبادلے کا حکم قانون کے مطابق نہیں اس لیے اسے معطل کر رہے ہیں۔

عدالت نے آئی جی اسلام آباد پولیس کے تبادلے کا نوٹیفکیشن معطل کرتے ہوئے ان کا تبادلہ روک دیا۔

واضح رہے کہ آئی جی اسلام آباد کی اچانک تبدیلی کا معاملہ کوئی پہلا واقعہ نہیں، اس سے قبل 8 اکتوبر کو حکومت نے ایک ماہ میں آئی جی پنجاب کو بھی تبدیل کردیا تھا۔

حکومت نے ماہ ستمبر میں ہی محمد طاہر کو آئی پنجاب تعینات کیا گیا تھا، تاہم ایک ماہ کے اندر ہی انہیں تبدیل کرکے امجد جاوید سلیمی کو نیا آئی جی پنجاب تعینات کیا گیا تھا۔

گزشتہ روز کچھ ذرائع ابلاغ میں اس طرح کی رپورٹ گردش کر رہی تھی کہ وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اعظم خان سواتی کا فون نہ اٹھانے پر آئی جی اسلام آباد کو عہدے سے ہٹا دیا گیا۔

ان رپورٹس میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا تھا کہ وفاقی وزیر اور آئی جی اسلام آباد کا تنازع چل رہا تھا اور اعظم خان سواتی کا ناپسندیدہ عناصر کے خلاف کارروائی کے لیے آئی جی پر دباؤ تھا، جس کی وجہ سے وہ ان کا فون اٹھانے سے گریز کر رہے تھے، تاہم حکومتی سطح پر ان خبروں کو بے بنیاد قرار دیا گیا تھا.

دوسری جانب ڈان اخبار کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ آئی جی اسلام آباد کو ان کے عہدے سے طاقت کے ذریعے ہٹایا گیا اور انہیں اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے سامنے پیش ہونے کا کہا گیا۔

جس کے بعد آئی جی اسلام آباد کی غیر موجودگی میں ڈی آئی جی سیکیورٹی وقار چوہان قائم مقام کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔

اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق پولیس سروس آف پاکستان (پی ایس پی) کے 20 گریڈ کے افسر اور موجودہ آئی جی پولیس اسلام آباد لیفٹننٹ (ر) جان محمد کو داخلہ ڈویژن کے تحت تبادلہ کردیا گیا ہے، جس پر فوری طور پر اطلاق ہوگا، ساتھ ہی انہیں ہدایت کہ گئی ہے کہ وہ فوری طور پر اسٹیبلشمنٹ ڈویژن رپورٹ کریں۔

ادھر ذرائع کا کہنا تھا کہ عام انتخابات سے قبل تعینات ہونے والے اسلام آباد پولیس کے سربراہ کے تبادلے کا فیصلہ گزشتہ ہفتے کرلیا گیا تھا۔

ذرائع نے بتایا تھا کہ یہ فیصلہ کچھ معاملات کے باعث کیا گیا تھا لیکن اس تبادلے کے پیچھے کی اصل وجوہات کو سامنے نہیں لایا گیا تھا۔

اگرچہ جان محمد اس وقت ایک کورس میں شرکت کے لیے ملائیشیا میں موجود ہیں اور وہ 5 نومبر کو وطن واپس آئیں گے، اگر اس وقت تک حکومت ان کی جگہ کسی افسر کو تعینات کردیتی ہے تو وہ اپنا چارج ان کے حوالے کریں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں