6

ملتان میں دوران زچگی انتقال کرجانے والے بچوں کی تعداد میں تشویشناک اضافہ

ملتان کے بنیادی مرکز صحت درانہ لنگانہ میں 17 اگست کو شبیر اپنی حاملہ اہلیہ شازیہ کو لے کر پہنچا جہاں میڈیکل آفیسر ڈاکٹر سدرہ کرن نے خاتون کی نارمل ڈلیوری کی، شبیر کا کہنا ہے کہ دوران ڈلیوری ڈاکٹر سدرہ کی بے احتیاطی سے بچی کو اس قدر خراشیں آئیں کہ اس کی کمر بری طرح زخمی ہوگئی۔

ضلع کی 66 سرکاری ایمبولینسوں میں سے اکثر خراب اور پیٹرول نہ ملنے کی وجہ سے فعال نہیں، یہی وجہ ہے کہ نومولود کو ریسکیو 1122 کی ایمبولینس میں نشتر اسپتال منتقل کیا گیا، لیکن زخم گہرے ہونے کی وجہ سے بچی چند گھنٹوں بعد ہی انتقال کرگئی۔ شازیہ اور شبیر کے اس سے قبل 4 بچے ہیں، جن میں 3 بیٹے اور 1 بیٹی شامل ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سے قبل انہیں کبھی ایسی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔

اس حوالے سے ‘معلومات کی رسائی’ کے قانون کے تحت حاصل کی گئی معلومات خوفناک صورتحال کی منظرکشی کر رہی ہیں۔ حاصل ہونے والے اعدادوشمار کے مطابق 2016ء میں طبی عملے کی بے احتیاطی، ناتجربہ کاری اور سہولیات کے فقدان کے باعث محض ایک ماہ کی عمر سے کم عرصے کے دوران انتقال کرنے جانے والے بچوں کی سالانہ تعداد 713 رہی، 2017 میں ایسے بچوں کی تعداد 683 تھی جبکہ جون 2018 تک 104 بچوں کا انتقال ہوا۔ دوسری جانب جون 2018ء تک صرف دوران زچگی انتقال کرنے والے بچوں کی تعداد 928 ہے، جو کہ انتہائی خطرناک ہے۔

ملتان میں اگر ماں اور بچے کی صحت کے حوالے سے سہولیات کی بات کی جائے تو دستیاب معلومات کے مطابق ضلع ملتان میں 7 سرکاری اسپتال موجود ہیں جہاں زچہ اور بچہ کو طبی سہولیات فراہم کی جا سکتی ہیں، جن میں تحصیل شجاع آباد اور تحصیل جلال پور پیر والا کے اسپتال بھی شامل ہیں۔ ان اسپتالوں میں 45 گائناکولوجسٹ موجود ہیں جبکہ سرکاری اسپتالوں میں منظور شدہ گائنا کولوجسٹس کی تعداد صرف 15 ہے۔

بنیادی مرکز صحت درانہ لنگانہ کی سپروائرز بتاتی ہیں کہ 10 اگست کو ان کے مرکز پر ایک حاملہ خاتون آئیں، میڈیکل آفیسر نے انہیں کئی گھنٹے تک لیبر روم میں رکھا، جب خون زیادہ بہہ گیا تو انہیں شہر کے سرکاری اسپتال منتقل کرنے کے بجائے اپنے نجی کلینک منتقل کرنے کا مشورہ دیا اور اس دوران مزید وقت ضائع ہوا، تاہم خاتون کا شوہر ان کی حالت دیکھ کر انہیں شہر کے کسی دوسرے کلینک لے گیا، دوران منتقلی ایمبولینس بھی نہ ملی، جس پر خاتون کو آٹو رکشہ میں بٹھا کر اسپتال پہنچایا، لیکن وہاں کے اخراجات ادا نہ کرنے پر اسے اپنی موٹر سائیکل گروی رکھوانا پڑی، جس کے بعد ڈاکٹر نے بچے کی پیدائش کے لیے آپریشن کا آغاز کیا، کئی گھنٹے مسلسل خون بہنے کی وجہ سے خاتون کئی روز تک دوبارہ زندگی پانے کے لیے موت سے لڑتی رہی اور بالآخر اسے نئی زندگی مل گئی۔

طبی عملے کی جانب سے کسی بھی طرح کی غفلت برتنے پر پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن کارروائی کرنے کے حوالے سے سول کورٹ کا درجہ رکھتا ہے۔
اس واقعے کے خلاف متاثرہ خاندان نے ڈاکٹر کے خلاف کارروائی کے لیے ہیلتھ کیئر کمیشن پنجاب کو درخواست دی، تاہم چند ہی دنوں بعد درخواست واپس لے لی گئی۔ ڈپٹی ڈائریکٹر کمیونیکیشن اینڈ میڈیا کوآرڈنیشن پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن عامر وقاص چوہدری کے مطابق، ‘طبی عملے کی جانب سے کسی بھی طرح کی غفلت برتنے پر پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن کارروائی کرنے کے حوالے سے سول کورٹ کا درجہ رکھتا ہے، لیکن لوگ اکثر اوقات خود ہی کارروائی سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں اور دونوں فریقین آپس میں راضی نامہ کر لیتے ہیں’، تاہم انہوں نے بتایا کہ ‘جن لوگوں نے کارروائی کی درخواست واپس نہ لی ہو تو ایسی درخواستوں پر عملدرآمد کرکے جرمانے اور سزائیں دی گئیں، جن میں زیادہ سے زیادہ جرمانہ 5 لاکھ روپے تک مقرر ہے اور اگر پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن کی کارروائی سے متاثرہ شخص مطمئن نہ ہو تو وہ کمیشن کے فیصلے کو بھی چیلنج کرسکتا ہے’۔

ضلع بھر میں قائم 82 بنیادی مراکز صحت میں ڈاکٹرز اور میڈیکل اسٹاف کی کُل تعداد 407 ہے، 8 دیہی مراکز صحت میں طبی عملے کی تعداد 171 ہے جبکہ 128 سرکاری میٹرنٹی سینٹرز میں زچگی کی سہولت صرف نارمل حالت میں تو موجود ہے لیکن اگر زچہ کی حالت تشویشناک ہو تو کوئی گائنا کولوجسٹ نہ ہونے کے باعث اسے شہر کے اسپتال منتقل کرنا پڑتا ہے۔

ملتان میں اس وقت نجی اسپتالوں کی تعداد 120 ہے جہاں زیادہ تر اسپتالوں میں گائنی کے حوالے سے بلاشبہ بہترین سہولیات دستیاب ہیں لیکن ایک بچے کی پیدائش پر ان اسپتالوں میں تقریباً 1 لاکھ روپے یا اس سے بھی زائد اخراجات ہوتے ہیں جو برداشت کرنا ہر خاندان کے بس کی بات نہیں جبکہ بچے کی پیدائش سے قبل کسی گائناکولوجسٹ سے ماہوار طبی معائنہ کے لیے بھی فی معائنہ کی کم سے کم فیس 2 ہزار روپے مقرر ہے۔

نیشنل پروگرام ہیلتھ اینڈ ایمپلائز ایسوسی ایشن پنجاب کی صدر رخسانہ انور بتاتی ہیں کہ تمام دیہی اور بنیادی مراکز صحت پر سہولیات انتہائی ناکافی ہیں، الٹرا ساؤنڈ مشینیں خراب ہیں جبکہ آکسیجن سلنڈرز بھی فراہم نہیں کیے گئے۔ محکمہ صحت پنجاب کی جانب سے ماں اور بچے کی صحت کے منصوبہ کے لیے صوبے میں سالانہ 2 ارب روپے سے زائد کا بجٹ مختص ہے، جس میں ملتان کے لیے 53 کروڑ روپے مختص ہیں لیکن ان مراکز کی حالت پھر بھی تبدیل نہیں کی جا سکی اور زچگی کی صورت میں حاملہ خاتون کے لواحقین دوائیوں سے لے کر ڈاکٹرز کے دستانے تک میڈیکل اسٹورز سے خود خریدکر دیتے ہیں، جبکہ سرکاری اسپتالوں میں یہ تمام اشیاء فراہم کرنا سرکار کی ذمہ داری ہے۔

نجی اسپتال میں ایک بچے کی پیدائش پر تقریباً 1 لاکھ روپے یا اس سے زائد کے اخراجات ہوتے ہیں جو برداشت کرنا ہر خاندان کے بس کی بات نہیں۔
رخسانہ انور بتاتی ہیں کہ ہر ایک رورل ہیلتھ سنٹر پر 5 اور بنیادی مرکز صحت پر صرف 1 میڈیکل آفیسر تعینات ہے، ان کی ڈیوٹی مکمل ہونے کے بعد کوئی ڈاکٹر سنٹرز پر موجود نہیں ہوتا، مردوں کے لیے پیرامیڈیکس اسٹاف جبکہ خواتین کے لیے مڈوائف یا پھر ایل ایچ وی موجود ہوتی ہے جو میٹرنٹی ایمرجنسی میں مریضوں کی دیکھ بھال کرتی ہیں۔

ملتان بھر میں 1980 لیڈی ہیلتھ ورکرز اور 225 مڈوائف رجسٹرڈ ہیں جن کی تربیت صرف عمومی حالت میں ڈلیوری تک محدود ہے، ڈلیوری کا کیس خراب ہونے کی صورت میں ہیلتھ کیئر کمیشن کی جانب سے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کا دعویٰ تو کیا جاتا ہے لیکن اکثر ڈاکٹرز کی جانب سے دباؤ اور اثر و رسوخ استعمال ہونے کے بعد یہ کارروائی عمل میں نہیں لائی جاتی۔

ڈلیوری کے لیے شہری علاقوں کے مہنگے پرائیویٹ اسپتالوں میں تو سہولیات میسر ہیں تاہم ملتان کے سرکاری اسپتالوں میں حکومت پنجاب کو زچہ بچہ کی زندگی کو محفوظ بنانے کے لیے اقدامات اٹھانا ہوں گے، تحصیل ہیڈکوارٹرز اسپتالوں اور دیہی علاقوں میں سہولیات نہ ہونے سے زچگی کے دوران بچے اور ماں کی قیمتی جانوں کے ضیاع کی بنیادی وجوہات بروقت اسپتالوں تک رسائی نہ ہونا اور قریبی رورل ہیلتھ سنٹرز پر ہمہ وقت میٹرنٹی لیڈی ڈاکٹرز کی عدم دستیابی ہے۔

لیڈی ہیلتھ ورکرز نارمل کیس کو تو سنبھال لیتی ہیں لیکن اگر کیس بگڑ جائے تو زچہ اور بچہ کی زندگی داؤ پر لگ جاتی ہے، رورل ہیلتھ سینٹرز میں کام کرنے والی لیڈی ڈاکٹرز شہر میں رہائش پذیر ہونے کی وجہ سے جنرل ڈیوٹی کرکے واپس شہر آ جاتیں ہیں، ان کی غیر موجودگی میں آنے والے نارمل کیس ہوں یا ایمرجنسی، ایل ایچ ویز اور مڈوائف اکیلے سنبھال نہیں پاتیں جس کی وجہ سے زچہ بچہ کی شرح اموات میں اضافہ ہوتا ہے۔

ان مسائل پر قابو پانے کے لیے حکومت پنجاب کو چاہیے کہ مرکز کے ادارے منصوبہ بندی کے ساتھ اشتراک کرکے رورلز ہیلتھ کلینکس اور ڈسپنسریز میں میٹرنٹی سروسز کا انتظام کریں، جیسا کہ منصوبہ بندی کے موبائل ایمبولینس پروجیکٹ میں موبائل وین میں لیڈی ڈاکٹرز، نرسنگ ہیلپرز اور ڈرائیور سمیت میٹرنٹی سے لے کر نارمل اور آپریشنز کی سہولیات میسر تھیں جو کہ دور دراز کے علاقوں میں بھی جا کر سہولیات فراہم کرتیں تھیں۔

لیڈی ہیلتھ ورکرز نارمل کیس کو تو سنبھال لیتی ہیں لیکن اگر کیس بگڑ جائے تو زچہ اور بچہ کی زندگی داؤ پر لگ جاتی ہے۔
حکومت کو چاہیے کہ رورل ہیلتھ سنٹرز میں قریبی علاقے سے تعلق رکھنے والی لیڈی ڈاکٹرز کو تعینات کیا جائے تاکہ کسی بھی وقت ضرورت پڑنے پر وہ بروقت اسپتال پہنچ کر طبی امداد فراہم کریں، اسپتالوں کو ضرورت کے مطابق اپ گریڈ کیا جائے تاکہ ایمرجنسی کیس کو وہیں پر ہینڈل کیا جائے اور ڈلیوری خراب ہونے پر زچہ و بچہ کو کہیں دور ریفر کرنے میں وقت کو بچانے کے ساتھ ماں اور بچے کی جان کو بھی خطرے میں ڈالنے سے محفوظ رکھا جا سکے۔

صوبائی وزیر صحت پنجاب ڈاکٹر یاسمین راشد سے ماں اور بچے کی صحت سے متعلق پوچھے گئے سوال پر انہوں نے کہا کہ ہماری حکومت ابھی نئی ہے، ہم اب ماں اور بچے کی صحت کے حوالے سے کام کر رہے ہیں اور جلد ہی جنوبی پنجاب میں 3 اسپتال تعمیر کیے جائیں گے، جس میں صرف ماں اور بچے کو طبی سہولیات فراہم کی جائیں گی جن میں سے ایک اسپتال ملتان میں ہو گا جبکہ باقی 2 اسپتال کن شہروں میں تعمیر کرنے ہیں ان پر ابھی فیصلہ ہونا باقی ہے، لیکن ماں اور بچے کو صحت کی بہترین سہولیات دینے کے حوالے سے باقاعدہ منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔

دوسری جانب ماں اور بچے کی جانب سے سرکاری سہولیات سمیت مختلف معاملات پر موقف لینے کے لیے بارہا چیف ایگزیکٹو ہیلتھ آفیسر ملتان ڈاکٹر منور عباس سے رابطہ کیا گیا لیکن ہر بار انہوں نے میٹنگ میں مصروفیت کا کہہ کر کسی بھی قسم کا موقف دینے سے گریز کیا۔

واضح رہے کہ 2017ء کی مردم شماری کے مطابق ضلع ملتان کی آبادی47 لاکھ 45 ہزار 109 ہے اور ضلع بھر کے لیے صحت کا مجموعی طور پر سالانہ بجٹ 3 ارب 49 کروڑ 51 لاکھ 8 ہزار روپے ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں