12

جعلی اکاؤنٹس کیس:اومنی گروپ کیخلاف اتنامواد ہےکہ آنکھیں بند نہیں کرسکتے، چیف جسٹس

اسلام آباد: میگا منی لانڈرنگ اور جعلی بینک اکاؤنٹس کیس کی سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ جعلی بینک اکاؤنٹس کیس میں اومنی گروپ کے خلاف اتنا مواد آ گیا ہے کہ کوئی آنکھیں بند نہیں کرسکتا۔

دوسری جانب اٹارنی جنرل نے کیس کی تحقیقات کے لیے بنائی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی رپورٹ پر 172 افراد کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں ڈالنے سے متعلق وضاحت بھی عدالت عظمیٰ میں پیش کردی۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بینچ نے منی لانڈرنگ اور جعلی بینک اکاؤنٹس کیس کی سماعت کی۔

سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل نے عدالت عظمیٰ کو آگاہ کیا کہ ‘وفاقی کابینہ نے ای سی ایل میں ڈالے گئے ناموں کا معاملہ جائزہ کمیٹی کو بھجوا دیا ہے اور 10 جنوری کو اس معاملے میں مزید پیشرفت متوقع ہے’۔

اس موقع پر اومنی گروپ کے وکیل نے کہا کہ ‘معاملہ کمیٹی کو بھجوا کر الجھا دیا گیا ہے، معلوم نہیں کمیٹی کب اقدامات کرے’۔

جس پر چیف جسٹس ثاقب نثار نے اومنی گروپ کے وکیل کی بات پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ‘ریمارکس دیئے کہ آپ کو مسئلہ ہے تو کابینہ کو چھوڑیں، میں ای سی ایل میں نام ڈال دیتا ہوں’۔

چیف جسٹس نے اومنی گروپ کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ‘آپ اصل کیس کی طرف نہیں آ رہے’۔

چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ ‘اومنی گروپ کے خلاف اتنا مواد آ چکا ہے کہ کوئی آنکھیں بند نہیں کر سکتا، اوپر سے چینی کی بوریاں بھی اٹھالی گئیں، یہ بتائیں کہ معاملہ اب کس کورٹ کو بھیجیں؟’

منی لانڈرنگ/ جعلی بینک اکاؤنٹس کیس کا پسِ منظر

ایف آئی اے حکام کے مطابق منی لانڈنگ کیس 2015 میں پہلی دفعہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے اُس وقت اٹھایا گیا، جب مرکزی بینک کی جانب سے ایف آئی اے کو مشکوک ترسیلات کی رپورٹ یعنی ایس ٹی آرز بھیجی گئیں۔

حکام کے دعوے کے مطابق بینک منیجرز نے انتظامیہ اور انتظامیہ نے اومنی گروپ کے کہنے پر جعلی اکاؤنٹس کھولے۔ یہ تمام اکاؤنٹس 2013 سے 2015 کے دوران 6 سے 10 مہینوں کے لیے کھولے گئے جن کے ذریعے منی لانڈرنگ کی گئی، دستیاب دستاویزات کے مطابق منی لانڈرنگ کی رقم 35ارب روپے ہے۔

مشکوک ترسیلات کی رپورٹ پر ڈائریکٹر ایف آئی اے سندھ کے حکم پر انکوائری ہوئی اور مارچ 2015 میں چار بینک اکاؤنٹس مشکوک ترسیلات میں ملوث پائے گئے۔

ایف آئی اے حکام کے دعوے کے مطابق تمام بینک اکاؤنٹس اومنی گروپ کے پائے گئے، انکوائری میں مقدمہ درج کرنے کی سفارش ہوئی تاہم مبینہ طور پر دباؤ کے باعث اس وقت کوئی مقدمہ نہ ہوا بلکہ انکوائری بھی روک دی گئی۔

جعلی بینک اکاؤنٹس کیس: اومنی گروپ کے سربراہ انور مجید گرفتار

دسمبر 2017 میں ایک بار پھر اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے ایس ٹی آرز بھیجی گئیں، اس رپورٹ میں جن اکاؤنٹس سے مشکوک ترسیلات ہوئی ان کی تعداد 29 تھی جس میں سے سمٹ بینک کے 16، سندھ بینک کے 8 اور یو بی ایل کے 5 اکاؤنٹس شامل ہیں۔

ان 29 اکاؤنٹس میں 2015 میں بھیجی گئی ایس ٹی آرز والے چار اکاؤنٹس بھی شامل تھے، جس کے بعد 21 جنوری 2018 کو ایک بار پھر انکوائری کا آغاز کیا گیا۔

تحقیقات میں ابتداء میں صرف بینک ملازمین سے پوچھ گچھ کی گئی، تاہم انکوائری کے بعد زین ملک، اسلم مسعود، عارف خان، حسین لوائی، ناصر لوتھا، طحٰہ رضا، انور مجید، اے جی مجید سمیت دیگر کو نوٹس جاری کیے گئے جبکہ ان کا نام اسٹاپ لسٹ میں بھی ڈالا گیا۔

ایف آئی اے حکام کے مطابق تمام بینکوں سے ریکارڈ طلب کیے گئے لیکن انہیں ریکارڈ نہیں دیا گیا، سمٹ بینک نے صرف ایک اکاؤنٹ اے ون انٹرنیشنل کا ریکارڈ فراہم کیا جس پر مقدمہ درج کیا گیا۔

جعلی اکاؤنٹس کیس: جے آئی ٹی نے زرداری اور اومنی گروپ کو ذمہ دار قرار دے دیا

حکام نے مزید بتایا کہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے سمٹ بنک کو ایکوٹی جمع کروانے کا نوٹس دیا گیا، سمٹ بینک کے چیئرمین ناصر لوتھا کے اکاؤنٹس میں 7 ارب روپے بھیجے گئے، یہ رقم اے ون انٹرنیشنل کے اکاؤنٹ سے ناصر لوتھا کے اکاونٹ میں بھیجی گئی تھی، انہوں نے یہ رقم ایکوٹی کے طور پر اسٹیٹ بینک میں جمع کروائی۔

حکام نے بتایا کہ تحقیقات کے بعد ایسا لگتا ہے کہ جو رقم جمع کروائی گئی وہ ناجائز ذرائع سے حاصل کی گئی، ان تمام تحقیقات کے بعد جعلی اکاؤنٹس اور منی لانڈرنگ کا مقدمہ درج کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

اومنی گروپ سربراہ انور مجید اور ان کے صاحبزادے عبدالغنی مجید، نمر مجید کے علاوہ نجی بینک کے سربراہ حسین لوائی بھی اسی کیس میں گرفتار ہیں۔

دوسری جانب سپریم کورٹ نے بھی میگا منی لانڈرنگ کیس کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے جے آئی ٹی تشکیل دی۔

زرداری، بلاول، فریال اور مراد علی شاہ کے بیرون ملک جانے پر پابندی عائد

مذکورہ کیس میں سابق صدر آصف علی زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور سے بھی تفتیش کی گئی جب کہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی تحریری طور پر جے آئی ٹی کو اپنا جواب بھیجا۔

گذشتہ ماہ 24 دسمبر کو عدالت عظمیٰ میں جمع کروائی گئی اپنی رپورٹ میں جے آئی ٹی نے سابق صدر آصف علی زرداری اور اومنی گروپ کو جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے فوائد حاصل کرنے کا ذمہ دار قرار دے دیا جس پر عدالت نے اومنی گروپ کی جائیدادوں کو منجمد کرنے کے احکامات جاری کردیے۔

دوسری جانب جے آئی ٹی رپورٹ میں شامل 172 افراد کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں ڈال دیئے گئے، جن میں انور مجید، ان کے اہلخانہ، آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری سمیت پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کے نام شامل ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں