5

سپریم کورٹ: ایون فیلڈ ریفرنس میں شریف خاندان کی سزا معطلی کے خلاف نیب کی اپیل خارج

سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایون فیلڈ ریفرنس میں اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے سابق وزیر اعظم نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن ریٹائر صفدر کی سزا معطلی کے خلاف قومی احتساب بیورو (نیب) کی اپیل خارج کردیں۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس آصف سعید، جسٹس گلزار احمد، جسٹس مشیر عالم، جسٹس مظہر عالم پر مشتمل 5 رکنی بینچ نے نواز شریف، مریم نواز، کیپٹن(ر) محمد کی سزا معطلی کے خلاف نیب کی اپیل پر سماعت کی۔

اس دوران نیب کی جانب سے خصوصی پراسیکیوٹر اکرم قریشی جبکہ نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیے جبکہ کمرہ عدالت میں مسلم لیگ(ن) کے رہنما راجا ظفر الحق، اقبال ظفر جھگڑا، رفیق رجوانہ اور حافظ حفیظ الرحمٰن موجود رہے۔

سماعت کے دوران نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے عدالت کو بتایا کہ 17 قانونی نکات ہیں، جن پر عدالت نے بحث کا کہا تھا، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پہلے ہم اس پر بات کر چکے ہیں، آپ بیٹھ جائیں پہلے نیب کا مؤقف سن لیتے ہیں۔

اس پر نیب پراسیکیوٹر نے مؤقف اپنایا کہ سزا معطلی میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے قانونی تضاضوں کو مدنظر نہیں رکھا، کیس کے میرٹ پر بات کی گئی جو کہ ہائیکورٹ کا اختیار نہیں ہے، جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ضمانت منسوخی کے قواعد کے بارے میں بتائیں۔

چیف جسٹس کے استفسار پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ ہائیکورٹ کے شواہد کے مطابق سزا بھی نہیں بنتی، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمیں سارے حقائق پتہ ہیں اس سے ہٹ کر آپ کس بنیاد پر ضمانت منسوخی چاہتے ہیں۔

انہوں نے نیب پراسیکیوٹر سے پھر استفسار کیا کہ آپ بتادیں کن اصولوں پر ضمانت منسوخ ہوسکتی ہے، یہ بھی بتا دیں کہ کیا ہائیکورٹ کو سزا معطل کرنے کا اختیار تھا، جس پر پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ ضمانت کے کیس میں میرٹ کو نہیں دیکھا جا سکتا لیکن ہائی کورٹ نے میرٹ کو دیکھا۔

نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ اس کیس میں عدالت ٹرائل کورٹ کے میرٹ پر گئی جو کہ اختیارات سے تجاوز تھا جبکہ ہائیکورٹ نے خصوصی حالت کو بنیاد بنایا۔

اس پر جسٹس گلزار نے ریمارکس دیے کہ ضروری نہیں کہ یہ حالات واقعی ایسے ہوں، آپ کن بنیادوں پر ضمانت منسوخی چاہ رہے ہیں۔

ساتھ ہی چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ضمانت تو اب ہوگئی ہے, بے شک غلط اصولوں پر ہوئی ہو، آپ ہمیں مطمئن کریں کہ ہم کیوں سزا معطلی کے ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیں۔

اس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ میں عدالت عظمیٰ کے مقدمات کی بنیاد پر ہی کہہ رہا ہوں، صرف ہارڈشپ کے اصولوں پر ضمانت ہوسکتی ہے جبکہ نواز شریف اور مریم نواز کی ضمانت ہارڈشپ کے اصولوں پر نہیں ہوئی۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایک چیز سمجھ لیں عبوری حکم کبھی حتمی نہیں ہوتا جبکہ عبوری حکم حتمی حکم پر اثر انداز بھی نہیں ہوتا۔

جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے جس بنیاد پر نواز شریف کو سزا ہوئی، اسی بنیاد پر ان کی ضمانت بھی ہوئی، آپ نے تو اس بنیاد کو چیلنج ہی نہیں کیا۔

عدالت میں دوران سماعت جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ ہائیکورٹ نے خود کہا کہ آبزرویشن حتمی نہیں، صرف انتہائی بیماری اور علالت کی وجہ سے ضمانت ہوسکتی ہے اور ہائیکورٹ نے غیرضروری طور پر تجاوز نہیں کیا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں