6

فیض آباد دھرنا کیس: حکومت، سیکیورٹی ادارے اپنے دائرہ کار میں کام کریں، سپریم کورٹ

اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کی جانب سے 2017 میں فیض آباد میں دیے گئے دھرنے کے خلاف ازخود نوٹس کا فیصلہ سناتے ہوئے حکومت، قانون نافذ کرنے والے اداروں، خفیہ ایجنسیوں اور پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کو ہدایت کی ہے کہ وہ اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے کام کریں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس مشیر عالم پر مشتمل دو رکنی بینچ نے 22 نومبر کو فیض آباد دھرنے کا فیصلہ محفوظ کیا تھا جسے آج جاری کیا گیا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ازخود نوٹس کا فیصلہ سنانا مشکل کام ہے، عدالت عظمیٰ کے بینچ کی جانب سے عدالت میں فیصلہ پڑھ کر نہیں سنایا گیا اور صحافیوں کو کہا گیا کہ اس کی کاپی سپریم کورٹ آف پاکستان کی ویب سائٹ پر دستیاب ہوگی۔

مزید پڑھیں: فیض آباد دھرنا کیس:خادم حسین رضوی کے وارنٹ گرفتاری جاری

بعد ازاں فیض آباد دھرنا از خود نوٹس کا تفصیلی فیصلہ سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر جاری کیا گیا، جو 43 صفحات پر مشتمل ہے۔

ہر شہری، سیاسی جماعت کو پرامن احتجاج کا حق ہے
فیصلے میں کہا گیا کہ کوئی شخص جو فتویٰ جاری کرے جس سے ‘ کسی دوسرے کو نقصان یا اس کے راستے میں مشکل ہو’ تو پاکستان پینل کوڈ، انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 اور/ یا پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2016 کے تحت ایسے شخص کے خلاف ضرور مجرمانہ مقدمہ چلایا جائے۔

عدالت نے فیصلے میں کہا کہ قانون کی جانب سے عائد کی گئی ‘معقول پابندیوں’ میں رہتے ہوئے شہریوں کا یہ حق ہے کہ وہ سیاسی جماعتیں بنائیں اور اس کے رکن بنیں۔

فیصلے کے مطابق ہر شہری اور سیاسی جماعت ‘امن و عامہ کے مفاد’ میں ‘معقول’ قانونی پابندیوں کے مطابق پر امن اجتماع اور احتجاج کا حق رکھتے ہیں۔

اجتماع اور احتجاج کرنے کی حد اس وقت تک دائرے میں ہے جب تک وہ کسی دوسرے کے بنیادی حقوق، اس کی آزادانہ نقل و حرکت اور املاک کو نقصان نہ پہنچائے۔

عدالت کی جانب سے کہا گیا کہ ‘مظاہرین جو سڑکوں کا استعمال اور عوامی املاک کو نقصان پہنچاتے یا تباہ کرتے ہوئے عوام کے حق میں رکاوٹ ڈالتے ہیں ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے اور انہیں ذمہ دار ٹھہرایا جائے’۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں