16

عدالتی ہومیو پیتھک فیصلے، حکومت یا شہباز شریف کا یوٹرن

عدالتی ہومیو پیتھک فیصلے، حکومت یا شہباز شریف کا یوٹرن
وعدے کے باوجود شہباز شریف کا پی اے سی کی چیئرمینی چھوڑنے سے انکار
آئی جے آئی ، دھاندلی کیس ہو یا فیض آباد دھرنا کیس فیصلے ۔۔سمجھ کسی کو نہیں آئی
شیخ رشید کے بعد حکومت کی جانب سے شہباز شریف کی جانب سے پبلک اکاونٹس کمیٹی کے چیئرمین شپ سے استعفی کی مطالبہ اچانک نہیں ہے بلکہ کہا جا تا ہے کہ ایک تیسرے فریق نے ڈیڈ لاک کے خاتمے کے لیئے یہ طے کروایا تھا کہ حکومت وقتی طور پر مان جائے جس کے بعد شہباز شریف دو ماہ کے اند ر خود سے پی اے سی کی چیئرمین شپ سے استعفی دینگے اور سردار ایاز صادق پی اے سی کے نئے چیئرمین ہونگے لیکن پھر جب شیخ رشید نے دو ماہ گزرنے سے پہلے ہی شہباز شریف کے خلاف ڈگا لگا دیا اور حکومت نے شیخ رشید کو پی اے سی میں لانے کا فیصلہ کیا تو نون لیگ نے اپنے امیدوار سردار ایاز صادق کی جگہ خواجہ سعد رفیق کو ممبر نامزد کرنے کا فیصلہ کیا تو معاملہ بگڑ گیا جس کے بعد علیم خان کو قربانی کا بکرا بنانے کا فیصلہ کیا گیا اور پھر باقاعدہ حکومت نے شہباز شریف نے بھی شیخ رشید کے نقش قدم پر چلتے ہوئے طبل جنگ بجا دیایہی وجہ ہے کہ آج سردار دریشک نے بھی بھرے اجلاس میں شہباز شریف کو تنقید کا نشانہ بنایا لگتا ہے آئندہ چند دنوں میں شہباز شریف اپنا وعدہ پورا کرتے ہوئے مستعفی ہو جائینگے یا پھر نون لیگ اور پیپلز پارٹی کی متحدہ اپوزیشن کے لیے راہیں جدا ہو جائینگی کیونکہ پیپلز پارٹی اس سلسلہ میں ایک طرح سے ضامن تھی کہ اس مسئلہ کا یہی حل ہے کہ ھکومت مان جاے اور کمیٹیوں کی تشکیل بھی ہو جائے اور اب اگر شہباز شریف نے استعفی نا دیا تو ممکن ہے پیپلز پارٹی کی راہیں نون لیگ سے جد ہو جائیں۔

پاکستان کے آئین کے مطابق پاکستان میں کوئی بھی قانون قرآن و سنت کے منافی نہیں بنایا جا سکتا حالانکہ حضور نبی کریم ۖاور صحابہ کرام کی زندگی کے سیکڑو ں ایسے پہلو ہیں جہاں پر انکے بارے میں یا انکے عدل کے بارے میں سرعام پوچھا بھی گیا اور کہا بھی گیا لیکن پاکستان کے قانون کے مطابق یہاںکی عدلیہ کے بارے میں کچھ منفی نہیں لکھا جا سکتا لیکن اتنی گنجائش چھوڑ دی گئی ہے کہ عدالتوں کے دیئے گئے فیصلوں پر ضرور بات کی جا سکتی ہے اسی لئے کہتے ہیں کہ ایک شخص نے خواب میں دیکھا کہ انکے ملک کی ایک اعلی عدلیہ میں 1990کے کیس کے حوالے سے کیس منطقی انجام کے قریب تھا کہ اس وقت کے طاقت ور ترین سیاسی خاندان نے اس وقت کے قاضی کو ایک مختصر نجی محفل جس میں تین سے چار لوگ تھے میں اچانک تیس کروڑ میز پر رکھ دیئے جس پر ایماندار قاضی نے کہا توبہ توبہ اٹھاو انہیں یہاں سے آٹھاو لیکن چند ہی سیکنڈ بعد وہ رقم پچاس کروڑ تک جا پہنچی تو موصوف نے ادھر سے منہ ہی موڑ لیا اور میزبان سے کہا آپ نے اچھا نہیں کیا ایسے میں میز پر ستر کروڑ نقد پڑے تھے جس پر قاضی وقت کا موڈ ہی خراب ہو گیا ،

خراب موڈ کو دیکھتے ہی وہ رقم ایک عرب تک پہنچ گئی اور ساتھ ہی ایک حکمت والی بات بھی کہ سر جی ابھی تھوڑے د ن رہ گئے ہیں سوچ لیں ابھی تو بہت سلام ہوتی ہے آپ کو لیکن ریٹائرمنٹ کے بعد کسی نے آپ سے سلام بھی نہیں لینی ہم آپ سے یہ نہیں کہتے کہ اس کے عوض آپ ہمارے حق میں فیصلہ دیں ہم صرف چاہتے ہیں کہ بلا شبہ آپ فیصلہ ہی نہ دیں تاکہ آپ کی ایمانداری پر بھی شک نہ ہو اور آپ فیصلہ بھی دے دیںجس کے بعد سب نے دیکھا کہ اس کیس میں ایسا فیصلہ آیا کہ ساری دنیا حیران تھی کہ پیسے دینے والے نے دنیا کے تمام ثبوت دے دیئے کہ فلاں فلاں کو ہم نے اتنے اتنے پیسے اس اس اکاونٹ میں اس اس ذرائع سے دیئے ۔تمام ثبوت سامنے تھے اور لگتا تھا کہ وہ خاندان ساری زندگی کے لئے سیاست سے آوٹ ہو جائے گا لیکن پھر سب نے دیکھا کہ وہ ایک ایسا فیصلہ تھا جس کا نا سر تھا نا پاوں اور اس پر نا اس سوقت کی ایف آئی اے نے کان دھر ا اور نا اس کے بعد آنے والی حکومتوں نے اور نہ ہی اس بڑے ادارے نے اس پر کوئی پیش رفت کی۔

وہ موصوف جب جاگے تو انہوں نے اس ملک کی عدلیہ کا ایک اور فیصلہ سنا جس میں فیض آباد دھرنے کا بھی ذکر تھا اور پھر ڈی چوک دھرنوں کا بھی تذکرہ تھا لیکن پھر کہتے ہیں کہ ایک ایسا ہومیو پیتھک فیصلہ آیا جس میں فیصلہ کم اور حکمتیں بعد زیادہ تھیں اسی طرح کا ایک فیصلہ ایک اور وقت میں سامنے آیا تھا جس میں اسی عدالت کو چار حلقوں کے انتخابات میں تو دھاندلی کا ثبوت مل گیا لیکن جب اسی عدالت کو دو ہزار کے الیکشن کا کہا گیا تو اس میں انہی دھاندلی تونظر آئی لیکن وہ منظم دھاندلی نہیں تھی بلکہ وہ بے قاعدگیاں تھیں جس کی وجہ سے عدلیہ نے اتنی زیادہ ہدایات جاری کیں کہ جب جولائی 2018کا الیکشن سر پر آیا تو ان تمام ہدایات پر من و عن عمل کیا گیا اور جب الیکشن کمیشن کا آر ٹی ایس سسٹم بیٹھا تو سب کو سمجھ آئی کہ لاڈلے کی سیٹیںتو ان کے اندازے سے بھی زیادہ نکلی ہیں جس کے بعد رانا ثنااللہ، خواجہ آصف سمیت کئی رہنماوں کی لاٹری نکل آئی اور پھر جنہوں نے دھاندلی کا شور مچانا تھا وہ ہی انہیں سیٹوں کے بدولت چپ سادھ گئے اور مولانا فضل الرحمان کی بھی نہیں مانی کہ حلف نہ لیا جائے پھر پیپلز پارٹی اور نون لیگ نے ملنے والی پانچ پانچ سیٹوں نے ایسا کمال دکھایا کہ الیکشن حرام سے حلال ہو گئے اور پھر انہیں بھی ہومیو پیتھک فیصلوںکے فائدہ دیا گیاکیونکہ کہتے ہیں ہومیو پیتھک دوائی سے فائدہ ہی فائدہ ہو تا ہے اس کا کوئی سائڈ افیکٹ نہی ہوتا
>

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں