5

توہین عدالت کیس: ملک ریاض کو عدالت سے التوا نہیں ملے گا، چیف جسٹس

اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے صاحبزادے ارسلان افتخار اور ریئل اسٹیٹ ٹائیکون ملک ریاض کے درمیان کاروباری معاہدے سے متعلق توہین عدالت ازخود نوٹس میں ملک ریاض کے وکیل کو تحریری معافی نامہ جمع کروانے اور حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دائر کرنے کی ہدایت کردی۔

ساتھ ہی چیف جسٹس نے ملک ریاض کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ اب آپ کو اس عدالت سے التوا نہیں ملے گا، التوا صرف 2 صورت میں ملے گا، آیا ملک صاحب انتقال فرما جائیں یا جج صاحب انتقال کر جائیں۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے ملک ریاض اور ارسلان افتخار کے درمیان کاروباری معاہدے سے متعلق توہین عدالت کی درخواست پر سماعت ہوئی۔

دوران سماعت ملک ریاض کے وکیل ڈاکٹر باسط نے کہا کہ ملک ریاض کے خلاف توہین عدالت سے متعلق ازخود نوٹس نمٹایا جاچکا ہے، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ لیکن اس کیس میں فرد جرم عائد ہوچکی ہے، جس پر وکیل نے کہا کہ جب فرد جرم عائد ہوئی تو عدالتی حکم نامہ نہیں آیا تھا، عدالتی حکم نامے میں یہ کہا گیا تھا کہ ملک ریاض نے کبھی توہین عدالت نہیں کی۔

ڈاکٹر باسط کا کہنا تھا کہ ملک ریاض نے کہا تھا کہ ان کا معاملہ عدالت کے ساتھ نہیں ارسلان افتخار کے ساتھ ہے، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ڈاکٹر باسط آپ کے موکل پر فرد جرم لگ چکی ہے اب تو سزا ہونا باقی ہے۔

اس پر ڈاکٹر باسط نے کہا کہ ملک ریاض شدید بیمار ہیں ان کو کینسر ہے، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم اس کو قانون کے مطابق پرکھیں گے، ملک ریاض نے عدالتی حاضری سے استثنیٰ کی کوئی درخواست نہیں دی۔

سماعت کے دوران وکیل نے بتایا کہ عدالت نے مستند انگریز ڈاکٹروں کی میڈیکل رپورٹس پیش کی ہیں، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ مستند پاکستانی ڈاکٹروں کی رپورٹ پیش کردیں وہ بھی قبول کرلیں گے، آپ بار بار انگریز ڈاکٹروں کا حوالہ کیوں دیتے ہیں۔

اس پر ملک ریاض کے وکیل نے کہا کہ ان کے موکل کو پروسٹیٹ کینسر جیسی بیماری ہے، ساتھ ہی انہوں نے التوا کی درخواست کی، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کو اب اس عدالت سے التوا نہیں ملے گا، التوا صرف 2 صورت میں ملے گا، آیا ملک صاحب انتقال فرما جائیں یا جج صاحب انتقال کر جائیں۔

عدالتی ریمارکس پر وکیل نے کہا کہ ملک ریاض کی سرجری ہونی ہے، کینسر جیسے مرض نے ملک ریاض کی ریڑھ کی ہڈی کو بھی متاثر کیا ہے، ایک اخبار نے ملک ریاض کی بیماری کے بارے میں چھاپ دیا ہے، میڈیا کو اس طرح کی خبریں چھاپنے سے منع کیا جائے۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ٹرائل کے لیے گواہوں کی فہرست سابق اٹارنی جنرل نے تیار کی تھی، ان گواہوں میں سابق چیف جسٹس افتخار چودھری، ارسلان افتخار، یوسف رضا گیلانی، سید یوسف اور سلمان علی خان شامل ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اگر پریس کانفرنس کی بنیاد پر کیس بنا تھا تو اس کی ویڈیو ہی کافی ہے، صرف ویڈیو کی تصدیق کرنا ہوگی، ویڈیو میں پتہ چل جائے گا کہ بات کرنے کا انداز کیا تھا۔

ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی ریمارکس دیے کہ ہم ملک ریاض کو 10 ہفتے حاضری سے استثنیٰ دے سکتے ہیں، اس پر وکیل نے کہا کہ ملک ریاض نے فون پر کہا کہ میں عدالت سے غیر مشروط معافی مانگتا ہوں، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ لکھ کر دیں ہم الفاظ کو دیکھ کر غور کریں گے۔

چیف جسٹس کے ریمارکس پر وکیل ڈاکٹر باسط کا کہنا تھا کہ ملک ریاض کہتے ہیں کہ میں یہ داغ لے کر نہیں مرنا چاہتا کہ میں عدالت کی عزت نہیں کرتا، ملک ریاض اس وقت برطانیہ میں ہیں، ایک ہفتے میں غیر مشروط معافی جمع کرا دیں گے۔

وکیل نے کہا کہ میڈٰیا میں ملک ریاض کی بیماری کا نہیں آنا چاہیے، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ میڈیا کے ساتھ آپ کے بہت اچھے تعلقات ہیں آپ کی کوئی خبر نہیں لگی۔

بعد ازاں عدالت نے ملک ریاض کو حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دائر کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت 21 فروری تک ملتوی کر دی۔

اس سے قبل کاروباری معاہدے سے متعلق کیس میں مختلف درخواست گزاروں کی نظرثانی کا معاملہ بھی آیا اور عدالت نے مختلف درخواست گزاروں کی جانب سے نظر ثانی اپیلیں واپس لینے کی بنیاد پر خارج کردی۔

اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ اپیل پر مزید سماعت نہیں چاہتے، جس پر وکیل ارسلان افتخار قوسین مفتی نے کہا کہ میرے موکل ارسلان افتخار کے مطابق نظر ثانی اپیل واپس لی جائے، ہمارا موقف ہے کہ نظر ثانی اپیل نمٹا دی جائے۔

انہوں نے کہا کہ شعیب سڈل کمیشن کی رپورٹ آگئی تھی اس لیے اپیل کی سماعت نہیں چاہتے، اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا رپورٹ آپ نے پڑھی ہے، جس پر جواب دیا گیا کہ رپورٹ ہمیں نہیں ملی، وکیل کے جواب پر چیف جسٹس نے کہا کہ رپورٹ پڑھے بغیر آپ کیسے کیس کی سماعت نہی چاہتے۔

بعدا ازاں عدالت نے حکم دیا کہ درخواست گزاروں کی اپیل پر تمام اپیلیں نمٹائی جاتی ہیں، ان درخواستوں کو اب زیر التو رکھنا ضروری نہیں، درخواست گزاروں نے بھی اس سے اتفاق کیا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں