6

اصغر خان عملدرآمد کیس: ملوث فوجی افسران کے خلاف 4 ہفتے میں تحقیقاتی رپورٹ پیش کرنے کا حکم

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے اصغر خان عملدرآمد کیس میں ملوث فوجی افسران کے خلاف وزارت دفاع کو 4 ہفتے میں تحقیقاتی رپورٹ پیش کرنے کا حکم دے دیا۔

جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے اصغر خان عملدرآمد کیس کی سماعت کی، اس موقع پر ایف آئی اے حکام نے معاملے پر پیش رفت سے بینچ کو آگاہ کیا۔

دوران سماعت جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے کہ فوجی افسران کے خلاف کورٹ مارشل کارروائی کیوں نہیں شروع ہوئی؟ جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ ریٹائرمنٹ کے کتنے عرصے بعد کورٹ مارشل ہوسکتا ہے؟

جس پر اٹارجی جنرل نے بتایا کہ تحقیقات میں شواہد سامنے آنے پر کورٹ مارشل ہوگا، فراڈ یا کرپشن پر ریٹائرمنٹ کے بعد بھی کورٹ مارشل ہو سکتا ہے۔

جسٹس گلزار نے ریمارکس دیئے کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) اس کیس سے ہاتھ اٹھانا چاہتی ہے، دوسری جانب فوج نے رپورٹ دی ہے کہ افسران کے خلاف کارروائی جاری ہے۔

انہوں نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ آپ بتائیں ملوث افراد کا کورٹ مارشل کرنے کے بجائے انکوائری کیوں کررہے ہیں، جس پر اٹارجی جنرل نے بتایا کہ کورٹ مارشل سے پہلے تفتیش کرنا قانونی تقاضا ہے۔

جسٹس گلزار نے ریمارکس دیئے کہ ایف آئی اے نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ بینکوں میں 28 سال سے زیادہ پرانا ریکارڈ نہیں اس لیے شہادت نہیں مل رہی، اگر ایسا ہے تو بینکوں کے سربراہان کو بلا لیتے ہیں۔

جسٹس گلزار نے ریمارکس دیئے کہ الطاف حسین اور متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کو بھی پیسے ملے تھے جبکہ نہ ہی کیس میں ان کا نام سامنے آیا نہ ہی ایف آئی اے رپورٹ میں؟ جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ایف آئی اے رپورٹ میں الطاف حسین کا نام تھا۔

اٹارنی جنرل نے مؤقف اپنایا کہ الطاف حسین اور چند دیگر ملزمان کی حوالگی کے لیے برطانیہ سے بات چیت جاری ہے اور بہت جلد اہم پیش رفت متوقع ہے.

جسٹس گلزار ریمارکس دیئے کہ بہرحال جو بھی کرنا ہے فوج کی رپورٹ آنے کے بعد مشترکہ رپورٹس کا جائزہ لے کر کوئی حکم جاری کریں گے، فی الحال وزارت دفاع کی جانب سے عدالت سے 4 ہفتے کا وقت مانگا گیا ہے، اس لیے سماعت 4 ہفتے تک ملتوی کی جا رہی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: اصغر خان کے قانونی ورثا کی کیس کو جاری رکھنے کی استدعا

عدالت نے پاک فوج کو ملوث افسران کے خلاف 4 ہفتے میں تحقیقات مکمل کرنے کا حکم دیتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ تفتیش مکمل کرکے رپورٹ پیش کی جائے اور وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی رپورٹ کا جائزہ وزارت دفاع کے جواب کے ساتھ لیا جائے گا۔

عدالت عظمیٰ نے ریمارکس دیئے کہ جائزہ لیں گے کہ عدالتی حکم پر عمل ہوا یا نہیں؟

سپریم کورٹ نے اصغر خان کیس میں وزارت دفاع کو 4 ہفتوں میں جواب جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔

واضح رہے کہ 11 جنوری کو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے مرحوم ایئر مارشل (ر) اصغر خان کے اہلِ خانہ کی درخواست قبول کرتے ہوئے اس کیس کی کارروائی جاری رکھنے کا حکم دیا تھا۔

اس لیے جسٹس گلزار احمد، جسٹس فیصل عرب اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل سپریم کورٹ کا 3 رکنی بینچ اس کیس کی سماعت کررہا گا۔

خیال رہے کہ عدالت نے سیکریٹری دفاع ضمیر حسین کو طلب کرتے ہوئے ہدایت کی تھی کہ اس مالی اسکینڈل میں ملوث فوجی افسران کے خلاف تحقیقات کے حوالے سے عدالت کو اعتماد میں لیا جائے۔

ایف آئی اے کی فائل بند کرنے کی درخواست
29 دسمبر 2018 کو وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے سپریم کورٹ میں رپورٹ جمع کرواتے ہوئے اصغر خان عمل درآمد کیس کی فائل بند کرنے کی درخواست کی تھی۔

رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ جن سیاستدانوں پر الزام تھا انہوں نے رقم وصولی سے انکار کیا جبکہ اہم گواہوں کے بیانات میں تضاد ہے اور یہ ایک دوسرے سے مماثلت نہیں رکھتے۔

سپریم کورٹ میں جمع رپورٹ میں مزید کہا گیا تھا کہ یہ معاملہ 25 سال سے زیادہ پرانا ہے اور متعلقہ بینکوں سے رقم اکاؤنٹس میں جمع ہونے کا مکمل ریکارڈ نہیں ملا۔

علاوہ ازیں جی ایچ کیو، جو اپنے طور پر اس معاملے کی تحقیقات کررہا ہے، کی جانب سے بھی ابھی تک ایف آئی اے کو مطلع نہیں کیا گیا، چناچہ ادارے کے پاس اتنے شواہد نہیں کہ کیس پر فوجداری کارروائی ہوسکے۔

ایف آئی اے کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ سیاستدانوں میں رقوم کی تقسیم کی تحقیقات میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔ تحقیقات کی تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے ایف آئی نے بتایا کہ بریگیڈیئر ریٹائرڈ حامد سعید سمیت تمام اہم گواہوں سے رابطہ کیا، بینک کے ریکارڈ کی مکمل چھان بین کی گئی، متعلقہ بینک افسران کے بیان بھی ریکارڈ کیے گئے۔

اس کے ساتھ ساتھ 190 ٹی وی پروگرامز کا جائزہ بھی لیا گیا اور سیاستدانوں کے بیانات بھی ریکارڈ کیے گئے جبکہ اہم ثبوتوں کیلئے وزارت دفاع سے بھی رابطہ کیا گیا۔

اس کے باوجودبدقستمی سے تحقیقات کو منطقی انجام تک نہیں پہنچایا جاسکا، بریگیڈیئر ریٹائرڈ حامد سعید نے رقوم تقسیم کرنے والے آرمی افسران کا نام ظاہر نہیں کیا اور کسی آرمی افسر نے پیسوں کی تقسیم قبول نہیں کی۔

ایف آئی اے کا کہنا تھا کہ وزارت دفاع سے اہلکاروں کے متعلق کئی بار پوچھا گیا لیکن رقوم کی تقسیم میں ملوث حساس اداروں کے اہلکاروں سے متعلق نہیں بتایا گیا جس کے باعث کیس کی تحقیقات بند گلی میں داخل ہوگئی ہے چناچہ عدالت رہنمائی کرے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں