7

جارحیت کی گئی تو بھارت کو حیران کردیں گے، پاک فوج

پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے کہا ہے کہ بھارت نے ہمیشہ پاکستان کے خلاف سازشیں اور دہشت گردی کی، ہم جنگ میں داخل ہونا نہیں چاہتے لیکن یقین دلاتے ہیں کہ اگر بھارتی جارحیت ہوئی تو ہم انہیں حیران کردیں گے اور ہر خطرے کا بھرپور صلاحیت سے جواب دیں گے۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) میجر جنرل آصف غفور نے پریس بریفنگ کے دوران کہا کہ 14 فروری کو پلوامہ میں قابض بھارتی فوج کو کشمیری نوجوان نے نشانہ بنایا اور جیسا ہوتا ہے کہ واقعے کے فوری بعد پاکستان کے اوپر بھارت نے بغیر سوچے، بغیر کسی ثبوت کے الزامات کی بارش کردی۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان نے اس دفعہ جواب دینے کے لیے تھوڑا سا وقت لیا ہے، وقت اس لیے لیا کیونکہ جو الزامات ہم پر لگائے گئے تھے اس کی اپنے تئیں تحقیق کی تھی اور پھر ہمارے وزیراعظم نے اس پر جواب دیا تھا۔

ترجمان پاک فوج نے کہا کہ ہم ففتھ جنریشن جنگ کے خطرے میں ہیں اور اس کا ہدف نوجوان نسل ہے، پاکستان کی 64 فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے تو میں تھوڑا سا حوالہ دے دوں کہ نوجوان نسل سمجھ لے کہ کیسے بات چیت چل رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہماری 72 سال کی تاریخ ہے،1947 میں ہندوستان کی تقسیم ہوئی اور پاکستان آزاد ہوا، اس حقیقت کو بھارت آج تک قبول نہیں کرسکا، 1947 اکتوبر میں بھارت نے کشمیر پر حملہ کیا اور 72 سال سے مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں پر ظلم و ستم جاری ہیں۔

ترجمان پاک فوج نے کہا کہ 1965 میں لائن آف کنٹرول پر کشیدگی ہوئی اور بھارت اسے بین الاقوامی بارڈر پر لے آیا اور وہاں اسے شکست ہوئی لیکن ہم ایک نوزائیدہ ملک تھے، ہمارے وسائل اور فوج بھی کم تھی تو اس وقت ہمارا ملک جو ترقی کی راہ پر گامزن تھا اس جنگ کے اس پر اثرات مرتب ہوئے، 1971 میں مشرقی پاکستان سے جو ہمارا زمینی فاصلہ تھا اور جو وہاں کے مسائل تھے اسے بھارت نے استعمال کیا، مکتی باہنی کا کردار آپ کے سامنے ہے اور موجودہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کا اس حوالے سے بیان بھی آپ کے سامنے ہے۔

ترجمان پاک فوج نے کہا کہ اصل دہشت گردی بھارت نے تب کی جب مکتی باہنی کے ذریعے وہاں پر حالات خراب کروائے گئے لیکن پاکستانی قوم اس سانحے سے بھی سنبھل گئی، اس کے بعد 1971 سے لے کر 1984 تک ایسا عرصہ تھا جس میں ہماری مشرقی سرحد پر کسی قسم کا کوئی واقعہ نہیں ہوا، حالات پرسکون تھے، ایل او سی کی خلاف ورزی نہیں ہوئی اور ہم نے ایک طریقے سے دوبارہ استحکام اور ترقی کی راہ پر گامزن ہونا شروع کیا لیکن پھر سیاچن کا واقعہ ہوا، ایک ایسا علاقہ جہاں افواج پاکستان کی موجودگی نہیں تھی وہاں پر بھارت نے ہمارے علاقے پر قبضہ کیا اور اس وقت سے لے کر اب تک دنیا کے بلند ترین مقام پر افواج پاکستان ڈٹی ہوئی ہیں اور مقابلہ کررہی ہیں۔

ترجمان پاک فوج نے کہا کہ اسی دوران افغانستان میں سوویت یونین نے حملہ کیا، جس کے بعد 1998 میں ہم نے اپنے دفاع کے لیے جوہری طاقت حاصل کی کیونکہ اس کی مدد سے بھارت کی جانب سے ہم پر روایتی جنگ مسلط کرنے کے امکانات ختم ہوجاتے۔

انہوں نے کہا کہ جب یہ امکانات ختم ہوئے تو بھارت نے غیرروایتی حکمت عملی اپناتے ہوئے ہمارے ملک میں دہشت گردی کو فروغ دینا شروع کیا، 2001 میں جب عالمی سیکیورٹی فورسز نے افغانستان میں طالبان کے خلاف آپریشن شروع کیا تو بھارت نے مشرقی سرحد پر کشیدگی شروع کردی اور ہماری توجہ اس طرف ہوگئی، اگر اس وقت ایسا نہیں ہوا ہوتا تو ہم بہتر پوزیشن میں ہوتے کہ مغربی سرحد سے پاکستان میں داخل ہونے والی دہشت گردی کو داخل نہ ہونے دیتے اور وہ دہشت گردی اتنی نہ پھیلتی جتنی اس کے نتیجے میں پھیلی۔

انہوں نے کہا کہ 2008 میں جب ہم دہشت گردی کے خلاف بھرپور جنگ لڑرہے تھے اور ہمیں کامیابیاں مل رہی تھیں تو ایک مرتبہ پھر بھارت اپنی افواج کو سرحد پر لے آیا، جس کا مقصد یہ تھا کہ بھارت، دہشت گردی کے خلاف کامیابیوں کو روکنا چاہتا تھا جس کا زندہ ثبوت کلبھوشن کی صورت میں ہمارے پاس موجود بھی ہے۔

ترجمان پاک فوج کا کہنا تھا کہ 1988، 1989 میں پاکستان نے میں دو طرفہ بات چیت کا آغاز کیا، پاکستان نے ہمیشہ امن کی پیشکش کی، 2003 میں ڈی جی ایم اوز کے درمیان ہاٹ لائن کی اور لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی کے لیے ایک معاہدہ کیا، تاہم گزشتہ 2 برس میں بھارت نے اس معاہدے کی تاریخ میں سب سے زیادہ خلاف ورزی کی جبکہ پاکستان نے لائن آف کنٹرول پر 5 کراسنگ پوائنٹس بھی قائم کیے۔

آصف غفور نے کہا کہ 2004 سے 2008 تک 5 مرتبہ ہماری مذاکرات کے لیے بیٹھک بھی ہوئی لیکن اس مرحلے کو بھی ممبئی حملے جیسے تناظر میں بھارت نے ختم کردیا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں