6

مقبوضہ کشمیر: حریت رہنماؤں کےخلاف کریک ڈاؤن، یاسین ملک گرفتار

حریت رہنما میر واعظ عمرفاروق نے کہا ہے کہ ’مقبوضہ کشمیر میں بھارتی پولیس نے جموں کشمیر لیبریشن فرنٹ (جے کے ایل ایف) کے چیئرمین یاسین ملک کو گرفتار کرلیا‘۔

عمر فاروق نے ٹوئٹر پر لکھا کہ ’ہم یاسین ملک سمیت جماعت اسلامی کے رہنماؤں اور کارکنوں کی گرفتاری پر شدید مذمت کرتے ہیں‘۔

انہوں نے کہا کہ ’کشمیریوں کے خلاف غیرقانونی اور اقتصادی پابندیاں رائیگاں جائیں گی تاہم اس طرح زمینی حقائق تبدیل نہیں ہوں گے، جبر اور دھمکی حالات کو مزید سنگین بنا دئیں گے‘۔

دوسری جانب کشمیر میڈیا سروس (کے ایم ایس) نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ ’بھارت پولیس نے یاسین ملک کو سری نگر میں ان کی رہائش گاہ سے تحویل میں لیا اور کوٹھی باغ پولیس اسٹیشن میں مقدمہ درج کیا‘۔

جموں و کشمیر پیپلز ڈیموکریٹس پارٹی کی صدر محبوبہ مفتی کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران حریت رہنما اور متعدد جماعت اسلامی کے کارکنوں کو گرفتار کرلیا گیا‘۔

اس حوالے سے کے ایم ایس نے جے آئی کے مراسلہ کا حوالہ دیا کہ ’بھارت کی جانب سے مذکورہ کریک ڈاؤن مربوط سازش ہے تاکہ مقبوضہ کشمیر میں صورتحال بدتر ہو‘۔

انہوں نے کہا کہ ’ایسے وقت پر تحویل میں لیا جارہا ہے جب بھارتی سپریم کورٹ میں آرٹیکل 35 اے کے خلاف پٹیشن دائر کی گئی‘۔

خیال رہے کہ آرٹیکل 35 اے جموں و کشمیر کے قانون ساز اسمبلی کو اختیار بخشتی ہے کہ وہ ریاست کے مستقل شہریوں اور ان کے خصوصی حقوق کا تعین کرے۔

کے ایم ایس کے مطابق جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے رہنماؤں میں ڈاکٹر عبدالحمید فیاض، ایڈوکیٹ زاہد علی، غلام قادر، عبدالروف، مدثر احمد، عبدالسلام، بختاور احمد، محمد حیات، بلال احمد اور غلام محمد ڈار شامل ہیں۔

ٹائمز آف انڈیا کے مطابق جمعہ کی رات کو حریت رہنما یاسین ملک کو گرفتار کیا گیا تاہم پولیس اور پیرا ملٹری فورسز کو ہائی الرٹ رہنے کی ہدایت کردی گئی۔

اس حوالے سے سینئر بھارتی صحافی برکھا دت نے کہا کہ ’جموں و کشمیر میں کشمیریوں رہنماؤں کی گرفتاری کے لیے وسیع پیمانے پر کریک ڈاؤن جاری ہے اور ہنگامی بنیادوں پر اضافی پیرا ملٹری فورسز بھی پہنچ چکی ہے‘۔

اس حوالے سے پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما شیری رحمٰن نے حریت رہنما میر واعظ عمر فاروق کے بیان پر ردعمل میں گرفتاری کو قابل مذمت قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ ’بھارتی ظلم و ستم، زیادتی، دھکمی اور کشمیری رہنماؤں اور کارکنوں کی گرفتاری کا عمل نصف شب میں تاحال جاری ہے جو خطرناک ہے‘۔

خیال رہے کہ بھارت کی سپریم کورٹ نے پلوامہ حملے کے بعد بھارتی شہریوں کے ہاتھوں تشدد کا شکار بننے والے کشمیریوں کے لیے مکمل تحفظ فراہم کرنے کا حکم دیا تھا۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق پلوامہ حملے کے بعد تقریباً 700 کشمیری طالبعلم، مزدور اور تاجر مقبوضہ کشمیر لوٹ چکے ہیں۔

واضح رہے کہ مقبوضہ کشمیر کے علاقے پلوامہ میں سینٹرل ریزرو پولیس فورس کی بس پر حملے میں 44 پیراملٹری اہلکاروں کی ہلاکت پر بھارت نے پاکستان پر حملے کا الزام عائد کردیا تھا۔

اس سے قبل دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل نے بھارتی فورسز پر حملے سے متعلق بھارتی وزارت خارجہ کے بیان کو ’پاکستان پر الزام تراشی کا وتیرہ‘ قرار دے دیا تھا۔

انہوں نے کہا تھا کہ ’ایک طرف نئی دہلی غیر تصدیق شدہ سوشل میڈیا اکاؤنٹ کی ویڈیو کو اہم ثبوت قرار دیتا ہے لیکن (زیرحراست) بھارتی جاسوس کلبھوشن کے رضاکارانہ طور پر دینے والے بیان کو تسلیم نہیں کرتا‘۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں