6

فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے پر پی ٹی آئی کی نئی نظرِ ثانی درخواست

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے سپریم کورٹ میں عدالت عظمیٰ کی جانب سے نومبر 2017 میں راولپنڈی کے علاقے فیض آباد میں تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے دھرنے کے کیس کے 6 فروری کو سنائے گئے فیصلے پر دوبارہ نظر ثانی درخواست دائر کردی۔درخواست کے مطابق ‘سپریم کورٹ کے فیصلے میں خامیاں ہیں اور انصاف کے تقاضے کو پورا کرنے کے لیے اس پر نظر ثانی کی ضرورت ہے’۔

تحریک انصاف نے اپنی درخواست میں سپریم کورٹ سے استدعا کی کہ 6 فروری کے فیصلے میں سے 2014 میں تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے دھرنے کے حوالے سے دیے گئے چند ریمارکس حذف کیے جائیں۔ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے از خود نوٹس 2017 میں ہونے والے تحریک لبیک کے دھرنے کے حوالے سے تھا نہ کہ تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے دھرنے کے حوالے سے۔

درخواست میں کہا گیا کہ ‘پی ٹی آئی، پی اے ٹی کے دھرنے کا حوالہ پیراگراف 17 ،22 ،23 ،24 اور 52 میں دیا گیا جس سے یہ تاثر گیا کہ درخواست گزار نے اپنی تشہیر کے لیے غیر قانونی دھرنا اور جھوٹے الزامات لگائے’۔تحریک انصاف کی جانب سے دائر کی گئی پٹیشن کو جن بنیادوں پر دائر کیا گیا وہ مندرجہ ذیل ہیں:

ب: درخواست گزار نے دھرنا حقیقی وجوہات پر پاکستان میں عوام کے بنیادی حقوق کے مطابق دیا تھا، دھرنا نہ ہی تشہیر کے لیے تھا اور نہ ہی اس کے کوئی دیگر مقاصد تھے، درخواست گزار پاکستان کی عوام کے حقوق کے سیاسی مطالبے کے ساتھ کھڑا ہوا تھا، درخواست گزار کا فیض آباد دھرنے سے کوئی تعلق نہیں جس کی وجہ سے نظر ثانی کے لیے دیے گئے ریمارکس کو حذف کیا جانا چاہیے۔

ج: عدالت کی جانب سے دیے گئے ریمارکس درخواست گزار کا موقف سنے اور وضاحت کا موقع دیے بغیر دیے گئے جس کی وجہ سے ایسے ریمارکس کو حذف کیا جانا چاہیے۔

یہ پہلی نظر ثانی درخواست نہیں تھی

تحریک انصاف کی جانب سے فیض آباد دھرنے کے فیصلے کے خلاف آج جمع کرائی گئی درخواست پہلی درخواست نہیں تھی، اس سے قبل 12 اپریل کو بھی پی ٹی آئی نے سپریم کورٹ سے 6 فروری کے فیصلے کو معطل کرنے کی درخواست دیتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر ‘جانب دار’ ہونے کا الزام لگایا تھا۔

پی ٹی آئی کے سیکریٹری جنرل ارشد داد کی جانب سے ان کے وکیل بیرسٹر ظفر علی سید کے توسط سے جمع کروائی گئی درخواست میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ اس مقدمے کا فیصلہ لکھنے والے جج 2014 میں پی ٹی آئی اور پاکستان عوامی تحریک کی جانب سے اسلام آباد میں دیے گئے دھرنے، درخواست گزار اور اس کے اراکین کے کردار کے حوالے سے اس حد تک تعصب رکھتے ہیں کہ وہ معاملے میں 2014 کے دھرنے کا حوالہ لے آئے، لہٰذا درخواست گزار کہ یہ تحفظات بالکل جائز ہیں کہ یہ فیصلہ لکھنے والے جج مبینہ طور پر جانبدار تھے۔

درخواست میں کہا گیا تھا کہ اس فیصلے میں 2014 میں پی ٹی آئی اور پاکستان عوامی تحریک کی جانب سے دیے گئے دھرنے کا حوالہ دیا گیا تھا کہ جو اس کے ذمے دار تھے انہیں صاف بچ کر نکلنے دیا گیا اور ریکارڈ پر موجود مواد اور حقائق کی جانچ کے بغیر وہ افراد اہم سرکاری عہدوں پر موجود ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس فیصلے میں 2014 میں پی ٹی آئی اور پاکستان عوامی تحریک کی جانب سے دیے گئے دھرنے کا حوالہ دیا گیا تھا کہ جو اس کے ذمے دار تھے انہیں صاف بچ کر نکلنے دیا گیا اور ریکارڈ پر موجود مواد اور حقائق کی جانچ کے بغیر وہ افراد اہم سرکاری عہدوں پر موجود ہیں۔

درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ کیونکہ اس مبینہ جانبدارانہ رویے سے پورا فیصلہ داغدار ہو گیا تو اس کے کسی بھی حصے کو حذف کیا جانا ناممکن ہے لہٰذا یہ فیصلہ دوبارہ دیکھ کر اسے کالعدم قرار دیا جائے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں