6

قرضوں پر سود کی ادائیگی ملکی آمدن کے 41 فیصد تک پہنچ گئی

کراچی: ملک کے سرکاری قرضوں میں ریکارڈ اضافہ دیکھنے میں آیا اور جہاں اس سے قومی خزانے میں بھاری لاگت آرہی ہے وہیں اس کے باعث مالی خسارے میں اضافہ اور ترقیاتی منصوبوں کے زائد فنڈ لینے کی حکومتی صلاحیت بھی متاثر ہوئی ہے۔

اقتصادی جائزہ سروے کے مطابق مجموعی ملکی پیداوار (جی ڈی پی) کی شرح میں سرکاری قرضوں کے حجم میں مزید اضافہ ہوا اور مارچ 2019 میں یہ جی ڈی پی کا 74.2 فیصد ریکارڈ کیا گیا جبکہ جون 2018 میں سرکاری قرضے جی ڈی پی کا 72.1 فیصد تھے۔

اسی طرح ان قرضوں پر ادا کیے جانے والا سود گذشتہ 3 سالوں کے مقابلے مالی سال 19-2018 کے ابتدائی 9 ماہ میں بلند ترین سطح پر رہا۔

سروے رپورٹ میں بتایا گیا کہ رواں مالی سال کے دوران سود کی ادائیگی ملک کی کل آمدن کا 41 فیصد رہی جو گذشتہ برس کے اسی عرصے کے دوران 33 فیصد تھی۔

حکومتی دستاویز کے مطابق رواں مالی سال کے دوران سخت مانیٹری پالیسی، مختصر مدت کے اندرونی قرضوں کے بڑے حصے کے ساتھ ساتھ آمدن میں مسلسل کمی کے باعث سود کی ادائیگیوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔

سروے میں بتایا گیا کہ آمدن کے مقابلے میں مجموعی سرکاری قرضوں کا حجم مالی سال 2018 میں 477 فیصد جبکہ مالی سال 2017 میں 434 فیصد رہا البتہ اس دستاویز میں رواں مالی سال کے ابتدائی 9 ماہ کے اعداد و شمار فراہم نہیں کیے گئے۔

علاوہ ازیں رپورٹ میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ سالانہ 2 ہزار 396 ارب روپے کے بجٹ کے مقابلے میں سرکاری قرضوں کی مالیت ایک ہزار 975 ارب روپے ریکارڈ کی گئی۔

دوسری جانب اندرونی قرضوں کے بھاری حجم کے باعث اندرونی سطح ہر کی جانے والی سود کی ادائیگیاں مجموعی قرضوں کا 65 فیصد رہیں۔

مقدار میں بات کی جائے تو حکومت نے رواں مالی سال کے ابتدائی 9 ماہ کے دوران اندرونی قرضوں پر ایک ہزار 277 ارب روپے کا سود ادا کیا۔

تاہم بلند سود کی ادائیگیاں بنیادی طور پر مارکیٹ ریلیٹڈ ٹریژری بلز (299 ارب روپے)، ٹریژری بلز (290 ارب روپے)، قومی بچت اسکیم (272 ارب روپے) اور پاکستان سرمایہ کاری بانڈ (268 ارب روپے) کے لیے دی گئی رقوم سے کی گئیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں