7

مالی سال 20-2019 کیلئے 70 کھرب 36 ارب روپے کا بجٹ پیش

وزیر مملکت برائے ریونیو حماد اظہر قومی اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کا پہلا مکمل بجٹ پیش کردیا جن کی تقریر کے دوران اپوزیشن کی جانب سے احتجاج کیا گیا۔

وزیر مملکت برائے ریونیو حماد اظہر نے مالی سال 20-2019 کا بجٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ‘وزیر اعظم عمران خان کی قیادت میں ایک نئے سفر کا آغاز ہوا ہے، تحریک انصاف نئی سوچ، نیا عزم اور ایک نیا پاکستان لائی ہے، پاکستان کے لوگوں کی مرضی ہمیں یہاں لائی ہے، اب وقت ہے لوگوں کی زندگی بدلنے کا، اداروں میں میرٹ لانے کا اور کرپشن ختم کرنے کا۔’

انہوں نے کہا کہ ‘ہم سب اس ملک اور آئین کے محافظ ہیں، اس حکومت کےمنتخب ہوتے وقت پائی جانے والی معاشی صورتحال کو یاد کریں اور کچھ حقائق بتانے کی اجازت دیں۔’


بجٹ کے اہم نکات:

  • مجموعی مالی خسارے کا تخمینہ 3 ہزار 137 ارب روپے
  • وفاقی آمدنی کا تخمینہ 6 ہزار 717 ارب روپے
  • ترقیاتی بجٹ کے لیے 1800 ارب روپے مختص
  • دیامر بھاشا ڈیم کے لیے 20 ارب روپے مختص
  • داسو ہائیڈرو منصوبے کیلئے 55 اور مہمند ڈیم کے لیے 15 ارب روپے
  • ایف بی آر کے ریونیو کیلئے 5 ہزار 550 ارب روپے کا چیلنجنگ ہدف مقرر
  • جی ایس ٹی کی شرح 17 فیصد برقرار رکھنے کا فیصلہ
  • اعلیٰ تعلیم کے لیے ریکارڈ 43 ارب روپے مختص
  • زرعی شعبے کے لیے 12 ارب روپے
  • کراچی کے 9 ترقیاتی منصوبوں کے لیے 45.5 ارب روپے
  • عسکری بجٹ 1150 ارب روپے برقرار رہے گا
  • پینشن میں 10 فیصد اضافہ
  • وفاقی کابینہ کے ارکان کی تنخواہوں میں 10 فیصد کمی
  • مزدور کی کم از کم تنخواہ 17 ہزار 500 روپے
  • گریڈ ایک سے 16 تک کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد ایڈہاک اضافے کی تجویز
  • بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا وظیفہ بڑھا کر 5500 روپے کرنے کی تجویز
  • خشک دودھ، پنیر، کریم پر 10 فیصد درآمدی ڈیوٹی
  • چینی، کوکنگ آئل، گھی، مشروبات، سگریٹ اور سی این جی مہنگی کرنے کی تجویز

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کا مجموعی قرض اور ادائیگیاں 31 ہزار ارب روپے تھی اور 97 ارب ڈالر بیرونی قرضہ جات اور ادائیگیاں تھی اور بہت سے تجارتی قرضے زیادہ سود پر لیے گئے، گزشتہ 5 سال میں برآمدات میں کوئی اضافہ نہیں تھا، جبکہ حکومت کا مالیاتی خسارہ 2 ہزار 260 ارب روپے تک پہنچ گیا تھا۔

وزیر مملکت نے بتایا کہ ‘جب تحریک انصاف کو حکومت ملی تو بجلی کے نظام کا گردشی قرضہ 1200 ارب روپے تک پہنچ گیا تھا اور 38 ارب ماہانہ کی شرح سے بڑھ رہا تھا، سرکاری اداروں کی کارکردگی 1300 ارب روپے کے مجموعی خسارے سے ظاہر تھی، پاکستانی روپے کی قدر بلند رکھنے کے لیے اربوں ڈالر جھونک دیئے گئے، اس مہنگی حکمت عملی سے برآمدات کو نقصان پہنچا، درآمدات کو سبسڈی ملی اور معیشت کو نقصان ہوا، ایسا زیادہ دیر نہیں چل سکتا تھا اس لیے دسمبر 2017 میں روپیہ گرنے لگا اور ترقی کا زور ٹوٹ گیا، چیزوں کی قیمتوں پر دباؤ بڑھ رہا تھا اور افراط زر 6 فیصد کو چھو رہی تھی۔’

انہوں نے کہا کہ حکومت وقت کی ذمہ داری تھی کہ وہ مناسب اقدامات سے صورتحال کو قابو میں لاتی، ہم نے فوری خطرات سے نمٹنے اور معاشی استحکام کے لیے چند اقدامات کیے، درآمدی ڈیوٹی میں اضافے سے یہ درآمدات 49 ارب ڈالر سے کم ہوکر 45 ارب ڈالر تک آگئی اور تجارتی خسارہ 4 ارب ڈالر کم ہوا، وزیر اعظم کے اعتماد دلانے سے ترسیلات زر میں 2 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا، 38 ارب روپے ماہانہ کے حساب سے بڑھنے والے بجلی کے گردشی قرضے میں میں 12 ارب روپے کی ماہانہ کمی آئی اور اسے 26 ارب روپے پر لایا گیا جبکہ چین، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب سمیت دوست ممالک سے 9.2 ارب ڈالر کی امداد ملی، اس امداد پر ان ممالک کا شکر گزار ہوں۔

اپوزیشن اراکین احتجاج کر رہے ہیں — فوٹو: ڈان نیوز
اپوزیشن اراکین احتجاج کر رہے ہیں —

ان کا کہنا تھا کہ صنعتی اور برآمدی شعبوں کو رعایتی نرخوں پر بجلی اور گیس کی فراہمی، کم سود پر قرضوں کی فراہمی، خام مال پر عائد درآمدی ڈیوٹی میں کمی کے ذریعے مجموعی طور پر 10 ارب روپے کی رعایت، برآمدی شعبے میں وزیر اعظم کے پروگرام میں 3 سال کی توسیع، چین سے 313 اشیا کا ڈیوٹی فری معاہدے جیسے اقدامات سے موجودہ سال میں برآمدات کے حجم میں اضافہ ہوا۔

حماد اظہر نے بتایا کہ نِٹ ویئر میں 16 فیصد، بیڈ ویئر میں 10 فیصد، ریڈی میڈ گارمنٹس میں 29 فیصد، پھلوں اور سبزیوں میں 11اور 18 فیصد اور باسمتی چاول کی مقدار میں 22 فیصد اضافہ ہوا۔

انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ آئی ایم ایف سے 6 ارب ڈالر کا معاہدہ ہوگیا ہے، آئی ایم ایف کے بورڈ کی منظوری کے بعد اس پر عمل درآمد شروع ہوجائے گا، اس پروگرام میں ہونے کی وجہ سے کم سود پر 2 سے 3 ارب ڈالر کی اضافی امداد بھی میسر ہوگی، مالیاتی نظم و ضبط اور بنیادی اصلاحات کے لیے حکومت کی سنجیدگی نظر آئے گی جس سے عالمی سرمایہ کاروں کاا اعتماد حاصل ہوگا اور معیشت کو استحکام حاصل ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب سے فوری ادائیگی کے بغیر 3.2 ارب ڈالر کا سالانہ تیل درآمد کرنے کی سہولت حاصل کی تاکہ عالمی کرنسی کے ذخائر پر دباؤ کم ہو، اس کے علاوہ حکومت نے اسلامی ترقیاتی بینک سے ایک ارب ڈالر کی فوری ادائیگی کے بغیر تیل درآمد کرنے کی سہولت حاصل کی، ان اقدامات کی بدولت اس سال کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں 7 ارب ڈالر کی کمی آئے گی۔

حماد اظہر نے بتایا کہ بیرونی استحکام کے علاوہ حکومت نے دیگر اقدامات بھی کیے، اثاثے ظاہر کرنے کی اسکیم پر عملدرآمد جاری ہے جس سے ٹیکس کا دائرہ وسیع ہوگا اور بے نامی اور غیر رجسٹرڈ اثاثے معیشت میں شامل ہوں گے، 95 ترقیاتی منصوبے مکمل کرنے کے لیے فنڈز جاری کیے گئے، احتساب کے نظام، اداروں کے استحکام اور طرز حکمرانی بہتر بنانے کے لیے خصوصی اقدامات کیے گئے، اسٹیٹ بینک کو مزید خودمختاری دی گئی، افراط زر کو مانیٹری پالیسی کے ذریعے کنٹرول کیا جارہا ہے، ٹیکس پالیسی کو ٹیکس انتظامیہ سے الگ کیا گیا ہے تاکہ دونوں کام بہتر طریقے سے ہو سکے، ایک ٹریژری بینک اکاؤنٹ بنایا گیا ہے اور اب حکومت کی رقم کمرشل بینک اکاؤنٹ میں رکھنا منع ہے، پاکستان بناؤ سرٹیفکیٹ کا اجرا کیا گیا تاکہ سمندر پار پاکستانی 6.75 فیصد منافع سے فائدہ اٹھا کر وطن میں سرمایہ کر سکیں۔

قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیر اعظم عمران خان بھی شریک تھے — فوٹو: ڈان نیوز
قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیر اعظم عمران خان بھی شریک تھے

انہوں نے مزید بتایا کہ وفاقی ریونیو بورڈ (ایف بی آر) نے سرمائے کی کمی دور کرنے کے لیے گزشتہ برس کے 54 ارب روپے کے مقابلے میں 145 ارب روپے کے ریفنڈ جاری کیے، پیچھے رہ جانے والوں کے لیے امداد اور فنڈز کے پروگرام شروع کیے گئے، بلین ٹری سونامی اور کلین اینڈ گرین پروگرام شروع کیے گئے، سابق فاٹا کو قومی دھارے میں لانے کے لیے خیبرپختونخوا کا حصہ بنانے پر خصوصی توجہ دی گئی۔

مالی سال 20-2019 کے بجٹ کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بجٹ بناتے وقت حکومت کا بنیادی مقصد عوام کی فلاح اور خوشحالی ہے۔

بیرونی اور مالیاتی خساروں میں کمی کا ہدف

انہوں نے بتایا کہ مالی سال 20-2019 کے بجٹ کے لیے ہم نے بیرونی خسارے میں کمی کا ہدف رکھا ہے اور درآمدات میں کمی اور برآمدات میں اضافے سے بیرونی خسارے کو کم کیا جائے گا، جس کا مقصد کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 13 ارب ڈالر سے کم کرکے 6.5 ارب ڈالر تک کیا جائے گا، برآمدات میں اضافے کے لیے حکومت خام مال اور انٹرمیڈیٹ اشیا کے ڈیوٹی اسٹرکچر کے حوالے سے سپورٹ کرے گی، ٹیکس ریفنڈ کا نظام بہتر بنائے گی، مقابلے کی سستی بجلی اور گیس فراہم کرے گی، آزادانہ تجارتی معاہدوں کو دیکھا جائے گا اور پاکستان کو بین الاقوامی کڑی کا حصہ بنایا جائے گا، ایف بی آر کے ریونیو کے لیے 5 ہزار 550 ارب روپے کا چیلنجنگ ہدف رکھا گیا ہے۔

حکومتی اخراجات میں کمی کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ بجٹ میں اس پر خصوصی توجہ دی جائے گی تاکہ بنیادی خسارہ 0.6 فیصد تک رہ جائے، سول و عسکری حکام نے اپنے اخراجات میں مثالی کمی کا اعلان کیا ہے۔

وزیر مملکت نے بتایا کہ بجٹ 20-2019 میں ہماری بنیادی اصلاح ٹیکس میں اضافہ ہوگا، پاکستان میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح 11 فیصد سے بھی کم ہے جو خطے میں سب سے کم ہے، صرف 20 لاکھ لوگ انکم ٹیکس ریٹرن فائل کرتے ہیں، جن میں 6 لاکھ ملازمین ہیں، صرف 380 کمپنیاں کُل ٹیکس کا 80 فیصد سے بھی زیادہ ادا کرتی ہیں جبکہ کُل 3 لاکھ 39 ہزار بجلی و گیس کے کنیکشنز ہیں اور اس میں 40 ہزار سیلز ٹیکس میں رجسٹرڈ ہیں، اسی طرح کُل 31 لاکھ کمرشل صارفین میں سے 14 لاکھ ٹیکس دیتے ہیں، بینکوں کے مجموعی طور پر 5 کروڑ اکاؤنٹ ہیں جس میں 10 فیصد ٹیکس ادا کرتے ہیں، اس کے علاوہ ‘ایس ای سی پی’ میں رجسٹرڈ ایک لاکھ کمپنیوں میں سے صرف 50 فیصد ٹیکس ادا کرتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ملک میں ٹیکس وصولی کم ہے، بہت سے پیسے والے لوگ ٹیکس میں حصہ نہیں ڈالتے، نئے پاکستان میں اس سوچ کو بدلنا ہوگا، جب تک ٹیکس نظام میں بہتری نہیں لائیں گے پاکستان ترقی نہیں کرسکتا، تاریخی طور پر ہم نے صحت، تعلیم، پینے کے پانی، شہری سہولیات اور لوگوں سے متعلق چیزوں پر مطلوبہ اخراجات نہیں کیے، اب ہم اس مقام پر آگئے ہیں کہ ہمیں قرضوں اور تنخواہوں کی ادائیگیوں کے لیے بھی قرض لینا پڑتا ہے، اس صورتحال کو بدلنا ہوگا۔

کفایت شعاری کے ذریعے بچت

حماد اظہر نے بتایا کہ سول و عسکری بجٹ میں کفایت شعاری کے ذریعے بچت کی جائے گی، اس کے نتیجے میں سول حکومت کے اخراجات 460 ارب روپے سے کم کرکے 437 ارب روپے کیے جارہے ہیں جو 5 فیصد کمی ہے۔

وزیر مملکت نے بتایا کہ اسی طرح عسکری بجٹ موجودہ سال کی شرح یعنی 1150 ارب روپے پر مستحکم رہے گا، بچت کے اس مشکل فیصلے کے لیے وزیر اعظم کے تدبر اور عسکری قیادت خصوصاً آرمی چیف کی حمایت کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں، میں واضح کرنا چاہوں گا کہ پاکستان کا دفاع اور قومی خودمختاری ہر شے پر مقدم ہے، ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ وطن اور لوگوں کے دفاع کے لیے پاک فوج کی صلاحیت میں کمی نہ آئے۔

وزیر مملکت نے کہا کہ کمزور طبقوں کے تحفظ کے حوالے سے 4 مختلف تجاویز کا ذکر کروں گا، بجلی کے صارفین میں 75 فیصد ایسے ہیں جو ماہانہ 300 یونٹ سے کم استعمال کر رہے ہیں حکومت انہیں خصوصی تحفظ فراہم کرے گی، اس مقصد کے لیے 200 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے غربت کے خاتمے کے لیے ایک علیحدہ وزارت قائم کی ہے جو ملک میں سماجی تحفظ کے پروگرام بنائے گی اور ان پر عملدرآمد کرے گی، احساس پروگرام سے مدد حاصل کرنے والوں میں انتہائی غریب، یتیم، بے گھر، بیوائیں، معذور اور بے روزگار افراد شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 10 لاکھ مستحق افراد کو صحت مند خوراک فراہم کرنے کے لیے ایک نئی ‘راشن کارڈ اسکیم’ شروع کی جارہی ہے، جس کے تحت ماؤں اور بچوں کو خصوصی صحت مند خوراک دی جائے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ 80 ہزار مستحق افراد کو ہر مہینے بلاسود قرضے دیئے جائیں گے، 60 لاکھ خواتین کو ان کے اپنے سیونگ اکاؤنٹس میں وظائف کی فراہمی اور موبائل فون تک رسائی دی جائے گی، 500 کفالت مراکز کے ذریعے خواتین اور بچوں کو فری آن لائن کورسز کی سہولت دی جائے گی، معذور افراد کو وہیل چیئر اور سننے کے لیے آلات فراہم کیے جائیں گے۔

حماد اظہر نے کہا کہ تعلیم میں پیچھے رہنے والے اضلاع میں والدین کو بچوں کو اسکول بھیجنے کے لیے خصوصی ترغیب دی جائے گی، جبکہ عمر رسیدہ افراد کے لیے احساس گھر بنانے کا پروگرام شروع کردیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ احساس پروگرام کے تحت بےنظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) کے ذریعے 57 لاکھ انتہائی غریب گھرانوں کو فی سہ ماہی 5000 روپے نقد امداد دی جاتی ہے جس کے لیے 110 ارب روپے کا بجٹ مختص کیا گیا ہے، افراط زر کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے سہ ماہی وظیفے کو بڑھا کر 5500 مقرر کیا گیا ہے۔

وزیر مملکت نے کہا کہ غریبوں کی نشاندہی کے لیے سماجی اور معاشی ڈیٹا کو اپ ڈیٹ کیا جارہا ہے جو مئی 2020 تک مکمل ہوگا، اس دوران 3 کروڑ 20 لاکھ گھرانوں اور 20 کروڑ آبادی کا سروے کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ 50 اضلاع میں ‘بی آئی ایس پی’ سے بچیاں 750 روپے وظیفہ حاصل کرتی ہیں، اس پروگرام کو مزید 100 اضلاع تک توسیع دی جارہی ہے اور بچیوں کے وظیفے کی رقم 750 سے بڑھا کر 1000 تک کی جارہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ صحت سہولت پروگرام کے تحت غریب افراد کو صحت کی انشورنس فراہم کی جاتی ہے، مستحق افراد کو صحت کارڈ فراہم کیے جاتے ہیں جن سے وہ ملک بھر سے منتخب 270 ہسپتالوں سے 7 لاکھ 20 ہزار روپے کا سالانہ علاج کروا سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پہلے مرحلے میں پاکستان کے 42 اضلاع میں 32 لاکھ خاندانوں کو صحت انشورنس کی سہولت فراہم کی جارہی ہے، اگلے مرحلے میں اسے ڈیڑھ کروڑ پسماندہ خاندانوں تک توسیع دی جائے گی، اس پروگرام کا اطلاق تمام اضلاع بشمول تھرپارکر اور خیبر پختونخوا کے خاندانوں پر ہوگا۔

آئندہ مالی سال کے ترقیاتی بجٹ میں حکومت صحت، تعلیم، غدائیت، پینے کے صاف پانی کے لیے 93 ارب روپے مختص کرے گی، کم آمدن والے افراد کو سستے گھر بنا کر دینے کے لیے اقدامات کر رہی ہے، اس کے علاوہ موسمی تبدیلی کی تلافی کے لیے بلین ٹری سونامی، کلین اور گرین پاکستان پروگرام شروع کیے گئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم کوشش کریں گے کہ قیمتوں میں کم سے کم اضافہ کیا جائے لیکن اگر عالمی منڈیوں میں قیمتیں بڑھنے سے ہمیں قیمتوں میں اضافہ کرنا پڑے تو ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ صارفین کو تحفظ دیا جائے، قیمتوں میں استحکام بنیادی اہمیت رکھتا ہے، مالیاتی پالیسی اور مانیٹری پالیسی کے ذریعے قیمتوں میں اضافے کا مقابلہ کریں گے جس کے لیے مندرجہ ذیل اقدامات کیے گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بجٹ خسارہ پورا کرنے کے لیے اسٹیٹ بینک سے قرض حاصل کیا جاتا ہے اس سے مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے اب یہ سہولت استعمال نہیں ہوگی، افراط زر کے لیے ہمارا وسط مدتی ہدف 5 سے 7 فیصد ہے، بدعنوانی کے مقابلے کے لیے پرعزم ہیں، اداروں کو خودمختاری دیں گے اور ان کی صلاحیت میں اضافہ کریں گے، 20-2019 معیشت کے استحکام کا سال ہوگا۔

18 کھرب سے زائد کا ترقیاتی بجٹ

حماد اظہر نے کہا کہ اس سال قومی ترقیاتی بجٹ میں 1863 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، جن میں سے 950 ارب روپے وفاقی ترقیاتی پروگرام کے لیے رکھے گئے ہیں، ترقیاتی بجٹ کی ترجیحات میں پانی کا نظام، معلومات پر مبنی معیشت کا قیام، بجلی کی ترسیل و تقسیم کو بہتر بنانا، کم لاگت میں بجلی کی پیداوار، سی پیک، انسانی و سماجی ترقی میں سرمایہ کاری اور متعلقہ شعبوں میں پبلک ۔ پرائیویٹ پارٹنر شپ شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آبی وسائل کے بہتر استعمال کے لیے وفاقی ترقیاتی پروگرام کی توجہ بڑے ڈیموں اور نکاسی آب کے منصوبوں پر مرکوز ہے اس مقصد کے لیے 70 ارب روپے مختص کیے جارہے ہیں، دیامر بھاشا ڈیم کے لیے زمین حاصل کرنے کے لیے 20 ارب روپے اور مہمند ڈیم کے لیے 15 ارب روپے مختص کیے جارہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ سڑک اور ریل سے متعلق کچھ منصوبے سی پیک کا حصہ ہوں گے، اس مقصد کے لیے 200 ارب روپے تجویز کیے گئے ہیں جن میں سے 156 ارب روپے نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے ذریعے خرچ کیے جائیں گے، حویلیاں – تھاکوٹ شاہراہ کے لیے 24 ارب روپے تجویز کیے گئے ہیں، پشاور – کراچی موٹر وے کے سکھر-ملتان سیکشن کے لیے 19 روپے تجویز کیے گئے ہیں۔

اس کے علاوہ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت سوات ایکسپریس وے کو توسیع دی جائے گی، سمبڑیال-کھاریاں موٹروے تعمیر کی جائے گی اور میانوالی سے مظفرگڑھ تک ٹووے کیا جائے گا۔

حماد اظہر نے کہا کہ توانائی کے لیے 80 ارب روپے تجویز کیے جارہے ہیں، داسو پن بجلی منصوبے کیلئے 55 ارب روپے مختص کیے جارہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آئندہ مالی سال میں انسانی ترقی کے لیے 60 ارب روپے تجویز کیے جارہے ہیں جبکہ صحت، تعلیم، ترقیاتی اہداف کا حصول، موسمیاتی تبدیلی اہم ترجیحات ہیں۔

حماد اظہر نے کہا کہ زراعت صوبائی محکمہ ہے تاہم اس شعبے میں سرمایہ کاری کے لیے وفاقی حکومت، صوبائی حکومت کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے اور اس میں ترقی کے لیے 12 ارب روپے مختص کیے جارہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کی ترقی کے لیے 10.4 ارب روپے سے کوئٹہ ڈیولپمنٹ پیکج کے دوسرے مرحلے کا آغاز کیا ہے، یہ رقم 30 ارب روپے کے پانی اور نکاسی کے منصوبوں سے الگ ہے۔

انہوں نے کہا کہ کراچی کے 9 ترقیاتی منصوبوں کے لیے 45.5 ارب روپے فراہم کیے جائیں گے۔

روزگار کی فراہمی کے منصوبے

روزگار کے لیے وزیر اعظم کے ’50 لاکھ گھر پروگرام’ سے 28 صنعتوں کو فائدہ ہوگا اور بے روزگاروں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے، اس کے لیے زمینیں حاصل کرلی گئی ہیں اور سرمایہ کاری کے انتظامات مکمل کیے جارہے ہیں، یہ سلسلہ ملک بھر میں پھیلے گا، پہلے مرحلے میں راولپنڈی اور اسلام آباد کے لیے 25 ہزار اور بلوچستان میں 1 لاکھ 10 ہزار ہاؤسنگ یونٹ کا افتتاح کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ نئے کاروبار کے لیے سستے قرضے کی اسکیم کے تحت 100 ارب روپے دیئے جائیں گے۔

صنعتی شعبے کے لیے مراعات اور سبسڈی دی جارہی ہیں جس میں بجلی اور گیس کے لیے 40 ارب کی سبسڈی، برآمدی شعبے کے لیے 40 ارب روپے کا پیکج اور حکومت طویل المدتی ٹریڈ فنانسنگ کی سہولت برقرار رکھے گی۔

زرعی شعبے کیلئے 5 سالہ پروگرام

وزیر مملکت کا کہنا تھا کہ رواں سال زرعی شعبے میں 4.4 فیصد کمی ہوئی ہے، اسے واپس اوپر اٹھانے کے لیے صوبائی حکومتوں سے مل کر 280 روپے کا 5 سالہ پروگرام شروع کیا جارہا ہے، اس پروگرام کے تحت پانی سے زیادہ سے زیادہ پیداوار کے لیے پانی کا انفراسٹرکچر بنایا جائے گا اور اس کے تحت 218 ارب روپے کے منصوبوں پر کام ہوگا، گندم، چاول، گنے اور کپاس کی فی ایکڑ پیداوار میں اضافے کے لیے 44.8 ارب روپے فراہم کیے جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ کیکڑے اور ٹھنڈے پانی کی ٹراؤٹ مچھلی کی فارمنگ کے منصوبوں کے لیے 9.3 ارب روپے فراہم کیے جائیں گے، گھریلو مویشی کے پالنے کے لیے 5.6 ارب روپے فراہم کیے جائیں گے، جبکہ زرعی ٹیوب ویلوں پر 6.85 روپے فی یونٹ کے حساب سے رعایتی نرخ فراہم کیے جائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے کسانوں سے 10 ہزار روپے ماہانہ بل وصول کیا جاتا ہے اور 75 ہزار تک کا اضافی بل صوبائی اور وفاقی حکومتیں برداشت کرتی ہیں، چھوٹے کسانوں کے فصل خراب ہونے کی صورت میں نقصان کی تلافی کے لیے انشورنس اسکیم متعارف کرائی جارہی ہے جس کے لیے 2.5 ارب روپے رکھنے کی تجویز ہے۔

انہوں نے کہا کہ سرکاری اداروں میں اصلاح کے لیے ایک پروگرام پیش کیا جارہا ہے جس کے تحت رواں سال ایل این جی سے چلنے والے بجلی گھروں اور چند چھوٹے بجلی گھروں کی نجکاری کی جائے گی جس سے 2 ارب روپے حاصل ہوں گے، موبائل فون کے لائسنس سے ایک ارب روپے تک جمع ہونے کی توقع ہے۔

حماد اظہر نے کہا کہ بجلی کا گردشی قرضہ 1.6کھرب روپے، گیس کا گردشی قرضہ 150 ارب روپے ہے، گردشی قرضوں کے لیے بجلی اور گیس کے ٹیرف پر نظرثانی کی گئی، بجلی چوری کرنے والوں کے خلاف مہم کا آغاز کرکے 80 ارب روپے وصول کیے گئے ہیں اور حکومتی اقدامات کی وجہ سے گردشی قرضوں میں اضافہ 38 ارب روپے ماہانہ سے سے کم ہوکر 24 ارب رہ گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ انضمام شدہ قبائلی علاقوں کے ترقیاتی اخراجات کے لیے 152 ارب روپے فراہم کیے جائیں گے جس میں 10 سالہ ترقیاتی منصوبہ بھی شامل ہے جس کے لیے وفاقی حکومت 48 ارب روپے دے گی، یہ 10 سالہ پیکج 1 کھرب روپے کا حصہ ہے جو وفاقی اور صوبائی حکومتیں مہیا کریں گی۔

انہوں نے کہا کہ پاک ۔ چین اقتصادی راہداری (سی پیک) ہماری مستقل ترجیح ہے جس کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے اس میں نئے شعبے شامل کیے گئے ہیں جن میں اقتصادی ترقی، زراعت اور خصوصی معاشی زونز بنانے کے ذریعے صنعتی ترقی کا حصول شامل ہے، جبکہ ریلوے کے شعبے کو ترقی دینے کے لیے رقم مختص کی گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ منی لانڈرنگ ایک لعنت ہے، اس سے ملک کی بدنامی ہوتی ہے اور معاشی نقصان ہوتا ہے، تجارت پر منحصر منی لانڈرنگ کے خاتمے کے لیے ایک نیا نظام تجویز کیا جارہا ہے، اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو افراط زر کو قابو میں رکھنے کے لیے مانیٹری پالیسی بنانے کی وسیع تر خودمختاری دی جارہی ہے، جبکہ حکومت کو رقوم کمرشل بینکوں میں رکھنے کی ممانعت کردی گئی ہے۔

وزیر مملکت نے کہا کہ وفاقی حکومت کے ملازمین اور پینشنرز کے لیے سول گریڈ 1 سے 16 تک کے ملازمین کے لیے 10 فیصد ایڈہاک ریلیف الاؤنس، 17 سے 20 تک کی تنخواہوں میں 5 فیصد اور 21 اور 22 کی تنخواہوں میں کوئی اضافہ نہیں ہوگا کیونکہ انہوں نے ملکی معاشی صورتحال کے پیش نظر یہ قربانی دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

وفاقی حکومت کے تمام سول اور فوجی پینشرز کی کُل پینشن میں 10 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ معذور ملازمین کا اسپیشل کنوینس الاؤنس 1 ہزار سے بڑھا کر 2 ہزار کیا جارہا ہے جبکہ وزرا، وزرائے مملکت، پارلیمانی سیکریٹری، ایڈیشنل سیکریٹری، جوائنٹ سیکریٹری کے ساتھ کام کرنے والے اسپیشل پرائیوٹ سیکریٹری، پرائیوٹ سیکریٹری اور اسسٹنٹ پرائیوٹ سیکریٹری کی تنخواہوں میں 25 فیصد اضافہ کیا جارہا ہے۔

کابینہ کے تمام وزرا نے عمران خان کی قیادت میں اپنی تنخواہ میں 10 فیصد کمی کا تاریخی فیصلہ کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کم از کم تنخواہ بڑھاکر 17 ہزار 500 روپے ماہانہ کی جارہی ہے۔

بجٹ تخمینہ

وفاقی بجٹ تقریر میں انہوں نے بتایا کہ مالی سال 20-2019 کے لیے بجٹ تخمینہ 7 ہزار 22 ارب روپے ہے جو رواں مالی سال کے نظر ثانی شدہ بجٹ 5 ہزار 385 ارب روپے کے مقابلے میں 30 فیصد زیادہ ہے، مالی سال 20-2019 کے لیے وفاقی آمدنی کا تخمینہ 6 ہزار 717 ارب روپے ہے جو 19-2018 کے 5 ہزار 681 ارب روپے کے مقابلے میں 19 فیصد زیادہ ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ایف بی آر کے ذریعے 5 ہزار 550 ارب روپے کی آمدن متوقع ہے، جس کے مطابق ٹیکس ٹو جی ڈی پی شرح 12.6 فیصد ہوگا، وفاقی آمدنی وصولی میں سے 3 ہزار 255 ارب روپے ساتویں ‘این ایف سی ایوارڈ’ کے تحت صوبوں کو جائیں گے جو موجودہ سال کے 2 ہزار 465 ارب روپے کے مقابلے میں 32 فیصد زیادہ ہے۔

اسی طرح مالی سال 20-2019 کے لیے موجودہ وفاقی ذخائر میں 3 ہزار 462 ارب روپے کا تخمینہ ہے جو رواں مالی سال کے 3 ہزار 70 ارب روپے کے مقابلے میں 13 فیصد زیادہ ہے، اسی طرح وفاقی بجٹ خسارہ 3 ہزار 560 ارب روپے ہوگا۔

وزیر مملکت برائے ریونیو نے بتایا کہ مالی سال 20-2019 کے لیے صوبائی سرپلس کا تخمینہ 423 ارب روپے ہے اور مجموعی مالی خسارہ 3 ہزار 137 ارب یا جی ڈی پی کا 7.1 فیصد ہوگا جو 19-2018 میں 7.2 فیصد تھا۔

ٹیکس تجاویز

اپنی تقریر کے دوران ٹیکس تجاویز کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ اس سال پاکستان نے سابق حکومتوں کی طرف سے متعارف کروائی گئی ناقص ٹیکس پالیسیوں کے بدترین اثرات کا سامنا کیا، ان پالیسیوں کو پاکستانی عوام کی تائید حاصل نہ تھی، گزشتہ حکومت نے اضافی ٹیکس ریلیف فراہم کیا جس سے ٹیکس بیس میں 9 فیصد کمی واقع ہوئی، گزشتہ 5 سال کے دوران حکومت نے ٹیکس محصولات میں اضافے کے لیے صرف ٹیکس ریٹ میں اچانک تبدیلیوں کی رسائی کا سہارا لیا اور زیادہ مستعد، مساویانہ اور مضبوط ٹیکس نظام کے قیام میں ٹیکس بیس میں اضافے کی اہمیت کو تسلیم نہیں کیا گیا اور اس کے تباہ کن نتائج برآمد ہوئے۔

انہوں نے بتایا کہ 22 کروڑ آبادی میں صرف 19 لاکھ انکم ٹیکس گوشوارے جمع کرواتے ہیں اور ان میں بھی ٹیکس جمع کروانے والوں کی تعداد 13 لاکھ ہے، ساتھ ہی یہ بات بھی تشویشناک ہے کہ سیلز ٹیکس فائلرز کی تعداد صرف ایک لاکھ 41 ہزار ہے جس میں سے صرف 43 ہزار اپنے گوشواروں کے ساتھ ٹیکس ادا کرتے ہیں، پاکستان میں جی ڈی پی کے لحاظ سے ٹیکس کی شرح 12 فیصد ہے جو نہ صرف خطے بلکہ دنیا میں کم ترین شرح مٰں سے ایک ہے جبکہ موجودہ اخراجات کے لحاظ سے ضروری ہے کہ ٹیکس کی شرح جی ڈی پی کا 20 فیصد ہو، اسی تناظر میں موجودہ حکومت نے ٹیکس اصلاحات کا ایسا ایجنڈا ترتیب دیا ہے جس کے ذریعے سخت فیصلے کیے جائیں گے جو نہ صرف مائیکرو انکامک اسٹیبیلٹی بلکہ آنے والی نسلوں کی خاطر قومی یکجہتی کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے۔

مالی سال 20-2019 کے مجوزہ ٹیکس اقدامات کے بنیادی اصولوں کے بارے میں مختصر طور پر بتاتے ہوئے حماد اظہر نے کہا کہ یہ اقدامات حکومت کے درمیانی مدت پالیسی فریم ورک کا حصہ ہیں، اس فریم ورک کی بنیادی توجہ اس بات پر مرکوز ہے کہ درمیانی مدت کے دوران جمع ہونے والے محصولات اور حقیقی پوٹینشل میں فرق کم کیا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ مالی سال 19-2018 میں حکومت نے ٹیکس اخراجات کی حد 972 ارب 40 کروڑ روپے کی ٹیکس سہولیات دیں، یہ اخراجات ان بے شمار ٹیکس چھوٹ رعایتوں کا نتیجہ ہیں جو معیشت کے مختلف شعبوں کو مہیا کی جارہی ہیں، تاہم ان رعایتوں میں کمی سے نہ صرف محصولات بلکہ ٹیکس نیٹ میں بھی اضافہ ہوگا۔

وزیر مملکت نے کہا کہ ٹیکس کے خلا کو کم کرنے کی کوششیں 2 حصوں پر مشتمل ہیں، ایک چھوٹ اور رعایتوں میں مرحلہ وار کمی، دوسرا ویلیو ایڈڈ ٹیکس کی شرح کو مرحلہ وار مساویانہ بنانا اور خصوصی طریقہ پر نظرثانی کرنا، موثر اور خوف سے پاک ٹیکس تعمیل کو یقینی بنانا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ٹیکس گزار اور ٹیکس وصول کرنے والے کے مابین انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ذریعے رابطہ کاری کو متعارف کروایا جائے گا، جس سے ٹیکس گزار اور محکمے کے مابین اعتماد کا فقدان کم ہوگا۔

وزیر مملکت کا کہنا تھا کہ حکومت نے اثاثے ظاہر کرنے کے آرڈیننس 2019 کے نفاذ کے ذریعے اصلاحات کا پیکج متعارف کروادیا ہے تاکہ غیر دستاویزی معیشت کو ٹیکس نظام میں شامل کیا جائے اور ٹیکس تعمیل کی حوصلہ افزائی سےمعاشی بحالی و نمو کے مقاصد پورے ہوں۔

بجٹ تقریر کے دوران کسٹم ڈیوٹی کے حوالے سے اٹھائے گئے اقدامات کے حوالے سے حماد اظہر نے بتایا کہ ماضی میں ملکی ٹیکسوں سے ملنے والے کم ریونیو کی وجہ سے کسٹم ٹیرف کو درآمدات سے ریونیو حاصل کرنے کے لیے بے دردری سے استعمال کیا گیا، اس وقت پاکستان میں اوسطاً کسٹمز ٹیرف اور درآمدات کے مرحلے کے حوالے سے ریونیو بہت زیادہ ہے جبکہ درآمدات سے حاصل ہونے والے ریونیو میں تیزی سے اضافہ ہوا، درآمد شدہ خام مال کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا جس کے نتیجے میں ملکی اور برآمدی دونوں صنعتوں کی مسابقت پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔

انہوں نے بتایا کہ حکومت کو مکمل یقین ہے کہ برآمدات اور ملکی مینوفیکچرنگ کو فروغ دینے کے لیے کسٹمز ٹیرف کا استدلال ایک بنیادی ضرورت ہوتی ہے، اسی مقصد کے لیے 1600 سے زائد ٹیرف لائنز پر ڈیوٹی، خام مال کے ضمن میں مستثنیٰ کی جارہی ہے، جس سے تقریباً 20 ارب روپے کا ریونیو کا نقصان ہوگا لیکن صنعتی ترقی کے بدلے میں بہت زیادہ فوائد کی توقع ہے، حکومت کسٹمز ٹیرف کے اصلاحاتی منصوبے کو حتمی شکل دے رہی ہے جسے مرحلہ وار لاگو کیا جائے گا۔

حماد اظہر کا کہنا تھا کہ ٹیکسٹائل کے شعبہ اہم ہے اور حکومت کی پالیسی ہے کہ اس شعبے کو ٹیکسٹائل مشینری کے پارٹس اور آلات پر ڈیوٹی سے چھوٹ دے کر معاونت فراہم کی جائے گی، اسی طرح لچکدار دھاگے اور بغیر بنے کپڑے پر ڈیوٹی بھی کم کی جائے گی۔

انہوں نے بتایا کہ ملک کے تعلیمی شعبے میں کاغذ کا استعمال انتہائی اہم ہے اور اس کی قیمت سے تعلیم کی مجموعی لاگت پر اثر پڑتا ہے، کاغذ کی پیداوار کے لیے استعمال ہونے والے بنیادی خام مال جیسے برادہ اور کاغذ کے اسکریپ کو کسٹم ڈیوٹی سے چھوٹ دینے کی تجویز ہے جبکہ مختلف اقسام کے کاغذ پر ڈیوٹی 20 سے 16 فیصد تک کم کی جائے گی، جس سے کاغذ اور کتابوں کی قیمتوں میں کمی آئے گی اور پرنٹنگ کی صنعت کی حوصلہ افزائی ہوگی جبکہ قرآن پاک کی اشاعت کے لیے بھی خصوصی اقدامات کیے جارہے ہیں۔

بجٹ تجاویز کے دوران ان کا کہنا تھا کہ غیر روایتی برآمدات میں اضافے کے لیے لکڑی کے فرنیچر اور ریزر کی پیداوار میں استعمال ہونے والی کچھ اشیا پر ڈیوٹی کم کی جاسکتی ہے، مقامی جنگلات کو بچانے اور فرنیچر کنندگان کی حوصلہ افزائی کے لیے لکڑی پر ڈیوٹی 3 فیصد سے کم کرکے صفر فیصد اور لکڑی کے مصنوعی پینلز پر ڈیوٹی 11 فیصد سے کم کرکے 3 فیصد کرنے کی تجویز ہے، اسی طرح ریزر کے برآمد کنندگان کے لیے اسٹیل کی پٹیوں پر ڈیوٹی 11 فیصد سے کم کرکے 5 فیصد کرنے کی تجویز دی جارہی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ گھریلو اشیا کی صنعت، پرنٹنگ پلیٹ کی صنعت، سولر پینلز کے اسمبلرز اور کیمیکل انڈسٹری کے مداخل کی لاگت کو کم کرنے کے لیے ان کے مداخل پر ڈیوٹیز جیسا کہ گھریلو اشیا کے پارٹس/اجزا ایلومینیم کی پلیٹوں، دھاتی سطح والی اشیا اور ایسٹک ایسڈ پر ڈیوٹی کم کرنے کی تجویز ہے، بڑے پیمانے کی صنعتوں میں سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کی غرض سے تیل صاف کرنے والے ہائیڈرو کریکر پلانٹس کی تنصیب کے لیے استعمال ہونے والے پلانٹ اور مشینری پر ڈیوٹی سے چھوٹ دینے کی تجویز ہے۔

زرمبادلہ کے ذخائر کو بچانے کے لیے ممنوعہ ریگولیٹری ڈیوٹیز کے استعمال درآمدات تو کم ہوئیں لیکن ان میں کچھ اشیا ٹرانزٹ ٹریڈ میں چلی گئیں اور پھر انہیں واپس اسمگل کیا گیا، لہٰذا تجویز ہے کہ ٹائر، وارنش اور خوراک کی صنعت میں خوراک کی تیاری کے حوالے سے ڈیوٹی کے ڈھانچے کو منطقی بنایا جائے تاکہ ان اشیا کو اسمگلنگ میں منتقل ہونے سے بچایا جائے اور ضائع محصولات کو حاصل کیا جائے۔

حماد اظہر نے کہا کہ دوائیوں کی قیمتوں میں کمی کی غرض سے ادویات کی پیداوار میں استعمال ہونے والے خام مال کی 19 بنیادی اشیا کو 3 فیصد درآمدی ڈیوٹی سے استثنیٰ دینے کی تجویز دی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ برآمدات کی حوصلہ افزائی کے لیے برآمدی سہولیات کی مختلف اسکیموں کو سادہ اور خودکار بنایا جارہا ہے تاکہ انسانی عمل دخل کم سے کم ہو اور تیز رفتاری سے کام انجام ہو، یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ مالی سال 19-2018 کے 11 ماہ کے دوران خام مال کی درآمد پر برآمدات کو سہولیات فراہم کرنے کی مختلف اسکیموں کے تحت برآمد کنندگان کو ڈیوٹی کی مد میں 124 ارب روپے کی رعایت دی گئی۔

وزیر مملکت نے کہا کہ برآمد کنندگان کے وقت کی بچت کے لیے تجویز ہے کہ ان کی طرف سے فراہم کی جانے والی اشیا اور پیداوار کی شرح کو حتمی تصدیق کی شرح کے ساتھ عارضی طور پر قبول کیا جائے اور ان کے آرڈرز کی تکمیل میں تاخیر نہ کی جائے۔

انہوں نے کہا کہ منی لانڈرنگ ایک لعنت ہے اور بری شہرت کا باعث ہے، نیز اس سے معاشی نقصان بھی ہے، تجارتی بنیادوں پر منی لانڈرنگ کے خاتمے کے لیے ایک مکمل نیا نظام تجویز دیا جارہا ہے، منی لانڈرنگ اور کرنسی کی اسمگلنگ کے خلاف قانونی اقدامات کے لیے ایک نیا ڈائریکٹوریٹ آف کراس بارڈر کرنسی موومنٹ قائم کیا جارہا ہے۔

حماد اظہر کا کہنا تھا کہ سرحدی علاقوں میں اسمگلنگ کے خلاف اقدام کو مزید مضبوط بنانے کے لیے کراچی، پشاور، کوئٹہ میں اس کی روک تھام کے لیے علیحدہ ڈائریکٹوریٹس قائم کیے گئے۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے بعض سخت فیصلے کرنے پڑے، اس حقیقت کا احساس کرتے ہوئے کہ درآمدات کے مرحلے پر ڈیوٹی اور ٹیکس میں کیے جانے والے کسی بھی اضافے کا صارفین کا بوجھ پڑتا ہے، ہم نے درآمدی مرحلے کے حوالے سے محصولات کے ضمن میں کم از کم اقدامات برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ تجویز کیا جارہا ہےکہ اضافی کسٹم ڈیوٹی کی شرح موجودہ ڈیوٹی سے بالترتیب 2 فیصد سے 4 فیصد، 16 فیصد اور 20 فیصد کے ٹیرف سلیب پر 7 فیصد اضافہ کیا جائے جو بنیادی طور پر لگژری آئٹمز اور فنشڈ گڈز پر مشتمل ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ فی الوقت ایل این جی کو کسٹم ڈیوٹی سے استثنیٰ حاصل ہے چونکہ ایل این جی نے فرنس آئل کی جگہ لے لی ہے جس پر 7 فیصد کسٹم ڈیوٹی عائد ہے اس لیے اب ایل این جی کی درآمد پر 5 فیصد کسٹمز ڈیوٹی عائد کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔

حماد اظہر کا کہنا ہے کہ حکومت نے غریب طبقے کی بڑی اکثریت کے فائدے کے لیے محصولات جمع کرنے کی غرض سے جنرل سیلز ٹیکس کے ریٹ کو 17 فیصد سے آگے بڑھانے کا آپشن اختیار نہیں کیا۔

وزیر مملکت نے کہا کہ اس وقت اینٹوں کے بھٹوں سے 17 فیصد کے ریٹ سے ٹیکس وصول کیا جارہا ہے تجویز ہے کہ سیلز ٹیکس کے ریٹ کو 17 فیصد سے کم کرکے صلاحیت اور جگہ کے حساب سے طے کیا جائے، یہ دیہی علاقے کی صنعت ہے جہاں دستاویزی تقاضے کو پورا کرنا مشکل ہے۔

انہوں نے کہا کہ کھانے اور دیگر اشیا خورو نوش کی تیاری میں استعمال ہونے والی اشیا جیسا کہ آٹا، گوشت، سبزیاں وغیرہ کو دستاویزی شکل میں لانا مشکل ہے، اس کاروبار سے وابستہ افراد میں ٹیکس چوری کا رجحان بڑھتا ہے، اس لیے ٹیکس حکام کی جانب سے تجویز ہے کہ ریسٹورنٹس اور بیکری میں فراہم کی جانے والی اشیا پر سیلز ٹیکس کی شرح کو 17 فیصد سے کم کرکے 7.5 فیصد کیا جائے جس میں ٹیکس ایڈجسٹ کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔

حماد اظہر نے کہا کہ اس وقت خشک دودھ کے متعدد اقسام کے لیے سیلز ٹیکس کے نرخ یکساں نہیں ہیں، اس لیے ایک جیسی مصنوعات پر ٹیکس کی مختلف شرح عائد ہیں، اس فرق کو ختم کرنے کے لیے تجویز ہے کہ دودھ اور کریم ،خشک اور بغیر فلیور والے دودھ پر یکساں 10 فیصد ٹیکس عائد کیا جائے۔

وزیر مملکت نے کہا کہ ‘پی ایم سی’ اور ‘پی وی سی’ کی افغانستان برآمدات پر پابندی کے خاتمے کے لیے تجویز ہے کہ افغانستان اور وسطی ایشیائی ریاستوں کو زیرو ریٹ پر اشیا برآمد کرنے کی اجازت دی جائے، اس اقدام سے مندرجہ بالا اشیا کی ملک میں مقامی طور پر پیداوار کی حوصلہ افزائی کے ساتھ ساتھ برآمدات میں بھی اضافہ ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت متعدد اشیا پر معیاری سیلز ٹیکس کے علاوہ 2 فیصد اضافی ٹیکس بھی عائد ہے جیسا کہ بجلی اور گیس کے آلات، فوم، کنفیکشنری، اسلحہ اور ایمونیشن، لبریکنٹس، بیٹریاں، آٹو پارٹس، ٹائرز/ ٹیوبز وغیرہ شامل ہیں۔

حماد اظہر نے کہا کہ ٹیکس کی مکمل پوٹینشل کے ساتھ وصولی کو عملی جامہ پہنانے کے لیے تجویز ہے کہ ان اشیا (ماسوائے آٹوپارٹس) کو سیلز ٹیکس ایکٹ 1990 کے تیسرے شیڈول( ریٹیل پرائس ٹیکسیشن ) میں منتقل کردیا جائے۔

وزیر مملکت نے کہا کہ آٹو پارٹس جو کہ درمیانی نوعیت کی حامل ہیں اور صنعتوں میں استعمال ہوتی ہیں، تجویز ہے کہ ان پر عائد اضافی ٹیکس کو واپس لیا جائے تاکہ مقامی صنعت کی لاگت پیداوار میں کمی آئے۔

ان کا کہنا تھا کہ فاٹا اور پاٹا کے انضمام کے بعد سپلائز کے حوالے سے استثنیٰ میں 5 سال کی توسیع دی گئی تھی تاکہ معاشی سرگرمیاں بڑھیں، تجویز ہے کہ صنعتی خام مال اور پلانٹ و مشینری کی درآمد پر بھی ٹیکس استثنیٰ کو ان علاقوں میں وسعت دی جائے۔

حماد اظہر نے کہا کہ ان علاقوں میں تمام گھریلو، کاروباری صارفین اور 31 مئی 2018 سے پہلے قائم ہونے والی صنعتوں کو بجلی کی فراہمی پر سیلز ٹیکس کے لیے استثنیٰ دینے کی تجویز ہے، اس استثنیٰ کا اطلاق ان علاقوں میں واقع اسٹیل ملوں اور گھی کی ملوں پر نہیں ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت کاروباری درآمدات پر 3 فیصد ویلیو ایڈیشن ٹیکس عائد ہے جس کی وجہ سے ٹیکس کے بوجھ میں غیر ضروری طور پر اضافہ ہوگیا ہے، اس لیے تجویز ہے کہ موبائل فونز کی درآمد پر 3 فیصد ویلیو ایڈیشن ٹیکس ختم کردیا جائے، اس سے موبائل فونز کی درآمد پر عائد ٹیکس میں کمی آئے گی۔

وزیر مملکت نے کہا کہ اس وقت ویلیو ایڈیشن ٹیکس سے استثنیٰ او ایم سیز کی طرف سے درآمد کی جانے والی صرف ان اشیا پر موجود ہے جن کی قیمتیں ریگولیٹ کی جاتی ہیں، تجویز ہے کہ او ایم سیز کی طرف سے درآمد کی جانے والی تمام پیٹرولیم مصنوعات جیسے فرنس آئل پر بھی استثنیٰ دی جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ کئی سالوں سے سیلز ٹیکس قانون میں کئی سطحوں پر مشتمل ٹیکسیشن اور اس کے تحت قانون سازی کی شمولیت سے یہ ایک پیچیدہ شکل اختیار کرچکا ہے، اس کے بغور مطالعے کے بعد اسپیشل پروسیجر رولز کو ختم کرکے سیلز ٹیکس ایکٹ کا حصہ بنایا جارہا ہے، اسی طرح سے چند بے حد ضروری ایس آر اوز کو چھوڑ کر تمام ایس آر اوز اور ایس ٹی جی اوز کا خاتمہ کیا جارہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایس آر او 1125 ون کے ذریعے 5 پانچ برآمدی شعبوں یعنی ٹیکسٹائل، چمڑے، کارپٹس، کھیلوں کے سامان اور سرجیکل سامان کی پیداوار اور ان کی تیاری میں استعمال ہونے والی اشیا پر سیلز ٹیکس کو صفر کیا گیا تھا، جس کا مقصد ریفنڈ کی ادائیگی میں تاخیر کا خاتمہ کرنا تھا۔

وزیر مملکت نے کہا کہ زیرو ریٹنگ کی وجہ سے ملکی پیداوار اور صنعت کا ایک بڑا حصہ ہونے کے باوجود ان اشیا کی ملکی فروخت میں ٹیکس کی مقدار صرف 6 ارب روپے ہے جو کہ 1200 ارب روپے کی پیداوار کا ایک فیصد بھی نہیں، تیار شدہ اشیا پر کم شرحوں سے بھی محصولات کو نقصان پہنچ رہا ہے، ان نقائص کو دور کرنے اور محصولات کی مد میں ہونے والے نقصان کو روکنے کے لیے اقدامات تجویز کیے گئے ہیں۔

حماد اظہر نے کہا کہ اس حوالے سے تجاویز ہیں کہ ایس آر او 1125 کو منسوخ کردیا جائے، اس طرح 17 فیصد معیاری شرح کو بحال کردیا جائے، ٹیکسٹائل اور چمڑے کی تیار شدہ اشیا اور تیار شدہ کپڑے کی مقامی سپلائز پر سیلز ٹیکس کو 17 فیصد تک بڑھا دیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ تاہم ایسے پرچون فروش جو رئیل ٹائم میں اکاؤنٹنگ کا انتخاب کریں گے انہیں ریٹ میں رعایت دی جاسکتی ہے جو 15 فیصد تک ہوسکتی ہے۔

وزیر مملکت نے کہا کہ یوٹیلیٹیز کی مد میں زیرو ریٹنگ کا خاتمہ کیا جائے اور ان شعبوں میں سیلز ٹیکس کے ری فنڈ کو خود کار بنایا جائے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ ادا کیا گیا سیلز ٹیکس فوری طور پر ری فنڈ نہ ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ ری فنڈ پیمنٹ آرڈر ( آر پی او) کو فوری طور پر ادائیگی کے لیے اسٹیٹ بینک آف پاکستان بھیجا جائے گا، جہاں اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ برآمدات کی رقم کی وصولی کے ساتھ ہی اس ری فنڈ کو ادا کردیا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ روئی کو اس وقت سیلز ٹیکس سے استثنیٰ حاصل ہے، تجویز ہے کہ اس پر 10 فیصد ٹیکس عائد کیا جائے۔

وزیر مملکت نے کہا کہ اس وقت اسٹیل کے شعبے سے سیلز ٹیکس بجلی کے بلوں پر 13 روپے فی کلو واٹ ہار کے حساب سے اکٹھا کیا جارہا ہے، بلٹ کے لیے استعمال ہونے والے اسکریپ پر 5600 فی میٹرک ٹن کے حساب سے سیلز ٹیکس وصول کیا جاتا ہے جو ایڈجسٹیبل ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ شپ بریکرز کے لیے درآمد کیے جانے والے جہاز سیلز ٹیکس کی ادائیگی سے مستثنیٰ ہیں، تاہم جہاز توڑ کر حاصل کی جانے والی شپ پلیٹس پر 9600 فی میٹرک ٹن کے حساب سے ٹیکس نافذ ہے۔

حماد اظہر نے کہا کہ قبائلی علاقوں میں قائم اسٹیل انڈسٹری سیلز ٹیکس سے استثنیٰ حاصل ہے اور دیگر علاقوں کے اسٹیل یونٹس ان کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔

وزیر مملکت نے کہا کہ ان پیچیدہ قوانین سے چھٹکارا پانے اور اس شعبے سے پوٹینشل ریونیو حاصل کرنے کے لیے تجویز ہے کہ اسپیشل پروسیجر کا خاتمہ کیا جائے اور ان اشیا کو نارمل ٹیکس قانون کے تحت لایا جائے، بیلٹ، راڈز، شپ پلیٹس اور دیگر ایسی اشیا پر سیلز ٹیکس کی صورت میں 17 فیصد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی عائد کی جائے، ان اشیا پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی عائد کرنے سے فروخت پر سیلز ٹیکس کا خاتمہ کیا جارہا ہے اور بجلی کے استعمال کی بنیاد پر پیداوار کے حوالے سے کم سے کم معیارات کا تعین کیا جارہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اوگر کی جانب سے سی این جی کی قیمتوں کی ڈی ریگولیشن کے بعد سے سی این جی کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے، اس تناسب سے ٹیکس کی شرحوں کوریشنالائز نہیں کیا گیا اس لیے تجویز ہے کہ سی این جی ڈیلرز کے لیے ویلیو ریجن ون کے لیے 64.80 روپے فی کلوگرام سے بڑھا کر 74.04 روپے فی کلوگرام اور ریجن ٹو کے لیے 57.69 روپے فی کلوگرام سے بڑھا کر 69.57 روپے فی کلوگرام کردیا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ واضح رہے کہ اس اقدام سے سی این جی کی قیمت میں بہت معمولی اضافہ ہوگا کیونکہ سی این جی کی مارکیٹ قیمت اس رقم سے کہیں زیادہ ہے۔

وزیر مملکت نے کہا کہ سیلز ٹیکس کی ادائیگی کے لیے ریٹیلرز کو مختلف سطحوں میں تقسیم کیا گیا ہے ، سطح نمبر ایک کے ریٹیلرز کو 17 فیصد یا ٹرن اوور کا 2 فیصد، سطح نمبر 2 کے ذریعے ٹیکس کا نفاذ، تجویز ہے کہ ٹرن اوور ٹیکس کا خاتمہ کردیا جائے۔

حماد اظہر نے کہا کہ سطح نمبر ون کے ریٹیلرز کو ایف بی آر کے آن لائن سسٹم سے منسلک کردیا جائے گا، نظام سے منسلک دکانوں سے اشیا کی خریداری اور انوائسز طلب کرنے پر 5 فیصد تک سیلز ٹیکس کی واپسی کی صورت میں فائدہ دیا جائے گا، ایسی دکان جس کا سائز 1000 مربع فٹ یا اس سے زائد ہوگا اسے بھی سطح ون کے ریٹیلرز میں شامل کیا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس وقت چینی پر 8 فیصد سیلز ٹیکس عائد ہے، اس شعبے میں وسیع معاشی مواقع موجود ہیں لیکن یہاں سے جمع ہونے والا ٹیکس صرف 18 ارب روپے ہے جو کہ اس کی حقیقی پیداوار سے بہت کم ہے، ٹیکس میں خلا کو کم کرنے اور اس کے ریٹ کو دیگر اشیا سے ہم آہنگ کرنے کے لیے تجویز ہے کہ چینی پر سیلز ٹیکس کو بڑھا کر 17 فیصد کیا جائے۔

وزیر مملکت نے کہا کہ ریٹ میں اس اضافے کے اثر سے صارفین کو جزوی طور پر بچانے کے لیے تجویز ہے کہ چینی کو ان اشیا سے نکال دیا جائے جن کو غیر رجسٹرڈ افراد کو فروخت سے اضافی 3 فیصد ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے، اس اقدام سے چینی کی قیمت میں صرف 3.65 روپے فی کلو اضافہ ہوگا۔

چکن مٹن اور بیف کی اشیا کی کھپت میں اضافہ دیکھا گیا، اس پر بھی 17 فیصد سیلز ٹیکس کی تجویز دی گئی ہے۔

کاٹیج انڈسٹری کو حاصل استثنیٰ کا بڑے پیمانے پر غلط استعمال ہورہا ہے جس کی دوبارہ تشریح کی تجویز ہے، یکم جولائی 2019 سے کاٹیج انڈسٹری سے مراد وہ صنعت ہوگی جو رہائشی علاقوں میں قائم ہو، جہاں زیادہ سے زیادہ مزدور کام کرتے ہوں اور سالانہ ٹرن اوور 20 لاکھ روپے سے زائد نہ ہو۔

سونے چاندی، ہیرے اور زیورات کی بنائی پر سیلز ٹیکس پر کم شرح سے ٹیکس نافذ کیے جانے کی تجویز ہے۔

سنگ مرمر کی صنعت میں فروخت پر ٹیکس کی موجودہ شرح 1.25 روپے فی یونٹ ہے اور تجویز ہے کہ اس شعبے پر بھی 17 فیصد فی یونٹ کی شرح نافذ کی جائے۔

آئی سی ٹی قانون میں شامل ہونے والی دفعات، تجویز ہے کہ ایسی خدمات جو صوبائی قوانین میں قابل ادا ئیگی ٹیکس ہیں اور وہ آئی سی ٹی قوانین میں شامل نہیں انہیں بھی آئی سی ٹی قوانین میں شامل کیا جائے۔

ایسی خدمات جن پر پہلی ہی فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی نافذ ہے انہیں آئی سی ٹی قانون میں شامل نہیں کیا جائے گا تاکہ دہرے ٹیکس سے بچا جاسکے۔

حماد اظہر کا کہنا تھا کہ کاروبار میں آسانی کے لیے اقدامات، سیلز ٹیکس ایکٹ 1990 کی دفعہ 58 سے ڈائریکٹر یا شیئر ہولڈر کو یہ اختیار دیا جارہا ہے کہ وہ کمپنی کے لیے ادا شدہ ٹیکس کمپنی سے وصول کرسکے، سیلز ٹیکس کے پروسیجر کو آسان بنایا جارہا اور نادرا کے ای سروسز سے سیلز ٹیکس رجسٹریشن ممکن بنائی جاسکے۔

ٹیکس گزاروں کی سہولت کے لیے ڈی رجسٹریشن کے حوالے سے قواعد میں ترمیم کی جارہی ہے، اس پروسس کے دوران گوشوارے فائل کرنا ضروری نہیں اور اس کے احکامات پر درخواست دائر کرنے کی اجازت دی جائے۔

چینی، کوکنگ آئل، گھی، سگریٹ سیمنٹ، سی این جی مہنگی کرنے کی تجویز

فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کے حوالے سے مختلف اشیا پر ٹیکس کے ریٹ میں آہنگی کے لیے چینی والی مشروبات کی کھپت کم کرنے کے لیے فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی 11.25 فیصد سے بڑھا کر 13 فیصد کرنے کی تجویز ہے۔

بناسپتی گھی اور کوکنگ آئل پر صرف فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی لاگو ہے، خوردنی تیل، گھی اور کوکنگ آئل پر ایف ای ڈی بڑھا کر 17 فیصد کرنے جبکہ ویلیو ایڈڈ ٹیکس (وی اے ٹی) کے بدلے میں 1 روپیہ فی کلوگرام کو ختم کرنے کی تجویز ہے۔

انہوں نے کہا کہ صحت کو پہنچنے والے نقصانات کو مدنظر رکھتے ہوئے ریٹیل پرائس کے 5 فیصد کے برابر ایف ای ڈی متعارف کرنے کی تجویز ہے۔

سیمنٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی 1.5 روپے فی کلوگرام کے حساب سے نافذ العمل ہے اور تجویز ہے کہ اسے بڑھا کر 2 روپے فی کلوگرام کیا جائے۔

ایل این جی درآمدات پر ایف ای ڈی 16.18 روپے فی 100 مکعب فیٹ کو بڑھا کر مقامی گیس کے برابر 10 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو کرنے کی تجویز ہے۔

وزیر مملکت نے کہا کہ 1700 سی سی اور اس سے زائد انجن کی قوت کی حامل گاڑیوں پر 10 فیصد کی شرح سے ایف ای ڈی متعارف کرائی گئی تھی اب اس میں تبدیلی کرتے ہوئے، 100 سے 1000 سی سی پر 2.5 فیصد کی شرح، 1001 سی سی سے 2000 سی سی پر 5 فیصد اور 2001 سی سی سے زائد پر شرح 7.5 فیصد کرنے کی تجویز ہے۔

سگریٹ پر ایف ای ڈی کو بڑھا کر بالائی سلیب کے 45 روپے فی 1 ہزار اسٹک کو بڑھا کر 5200 روپے فی ایک ہزار اسٹک تک عائد کیا جارہا ہے، ذیلی سلیب کو 1650 روپے فی 100 اسٹک کے لحاظ سے ٹیکس عائد کیا جارہا ہے۔

حماد اظہر نے کہا کہ انکم ٹیکس کے رکے ہوئے ری فنڈز کے باعث کاروباری افراد کے لیے پیدا ہونے والے کیش کے مسائل کے خاتمے کے لیے ایف بی آر کی ری فنڈ سیٹلمنٹ کمپنی لمیٹڈ کے ذریعے ٹیکس ری فنڈ بانڈ جاری کرنے کی تجویز دی گئی ہے، اس سلسلے میں ایف بی آر ری فنڈ سیٹیلمنٹ کمپنی لمیٹڈ کو کوپرومیسری نوٹ جاری کرے گا جس میں ری فنڈ کلیم جمع کروانے کی تفصیلات اور واجب الادا ری فنڈ کی تفصیلات موجود ہوں گی۔

ان کا کہنا تھا کہ سابق حکومت نے قانون میں دفعہ متعارف کروائی تھی جس کے تحت مقررہ تاریخ تک ٹیکس گوشوارے جمع نہ کروانے والے فرد کا نام ٹیکس گزاروں کی فہرست (اے ٹی ایل) میں شامل نہیں کیا جاسکتا اور وہ نان فائلر ہی شمار ہوگا جو ایک ناانصافی تھی، اس لیے مقررہ تاریخ کے بعد ٹیکس گوشوارے جمع کروانے کے تسلسل کو برقرار رکھنے کے لیے اے ٹی ایل میں شامل نہ ہونے کی شرط کو ختم کیا جارہا ہے۔

وزیر مملکت نے کہا کہ سابق حکومت نے کسی نان فائلر کے نام پر 50 لاکھ روپے سے زائد کی جائیداد کو رجسٹر یا منتقل کرنے پر پابندی عائد کی تھی جس کے نتائج حاصل نہیں ہوئے اور اسے قانونی طور پر بھی چیلنج کیا گیا، اس لیے غیر منقولہ جائیداد کی خریداری پر عائد پابندی کو ختم کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے نئے گریجویٹس کو ملازمت کے مواقع فراہم کرنے کے لیے نیا ٹیکس کریڈٹ دینے کی تجویز دی ہے، ہائر ایجوکیشن کمیشن سے تصدیق شدہ یونیورسٹیوں اور اداروں سے حال ہی میں گریجویشن مکمل کرنے والے نوجوانوں کو ملازمت فراہم کرنے والے افراد کو ادا کردہ سالانہ تنخواہ کے حساب سے ٹیکس ری بیٹ دیا جائے گا۔

تنخواہ دار، غیر تنخواہ دار افراد کے لیے ٹیکس شرح میں اضافہ

وزیر مملکت نے کہا کہ فنانس ایکٹ 2018 میں تنخواہ دار اور غیر تنخواہ دار دونوں طرح کے افراد کے لیے ٹیکس شرح میں نمایاں کمی کی گئی تھی، اس سے قبل قابل ٹیکس آمد کی کم از کم حد 4 لاکھ روپے تھی تاہم اس ایکٹ کے ذریعے اس حد کو تین گناہ بڑھا کر 12 لاکھ روپے کردیا گیا تھا، تاہم مالی سال 20-2019 میں تجویز دی گئی ہے کہ قابل ٹیکس آمدن کی کم سے کم حد تنخواہ دار طبقے کے لیے 6 لاکھ روپے اور غیر تنخواہ دار طبقے کےلیے 4 لاکھ روپے کردیا جائے۔

بجٹ میں تجویز ہے کہ 6 لاکھ روپے سے زائد آمدن والے تنخواہ دار افراد کے لیے 11 قابل ٹیکس سلیبس 5 فیصد سے 35 فیصد تک کے پروگریسو ٹیکس ریٹس کے ساتھ متعارف کروائے جائیں، 4 لاکھ روپے سے زائد آمدن والے غیرتنخواہ دار افراد کے لیے آمدن کی 8 سلیبز 5 فیصد سے 35 فیصد ٹیکس ریٹ کے ساتھ متعارف کروائے جائیں۔

انہوں نے بتایا کہ کمپنیوں کے لیے ٹیکس ریٹ کو 2018 میں 30 فیصد سے ٹیکس سال 2023 میں 25 فیصد تک کم کرنے کی تجویز تھی، اس وقت ٹیکس کی شرح 29 فیصد ہے اور کمپنیوں کے لیے اس ریٹ کو آئندہ 2 سال کے لیے 29 فیصد پر فکسڈ کرنے کی تجویز ہے۔

بجٹ تقریر میں انہوں نے بتایا کہ غیر ظاہر کردہ ذرائع آمدن سے اکٹھی ہونے والی دولت کو جواز فراہم کرنے کے لیے استعمال ہونے والے طریقوں میں سے ایک عام طریقہ یہ ہے کہ سرمایہ کاری کو کسی تحفے کی وصولی ظاہر کیا جائے، لہٰذا اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ انکم ٹیکس گوشواروں کے مطابق تحائف کی مالیت 256 ارب روپے سے بھی زائد ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس خامی کے خاتمے کے لیے تجویز ہے کہ وصول تحائف کو دیگر ذرائع سے حاصل آمدن کے زمرے میں شامل کیا جائے، تاہم قریبی رشتے داروں سے وصول تحائف پر اس قانون کا اطلاق نہیں ہوگا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں