12

سنجرانی باپ کے امیدوار تھے یا مائی باپ کے؟اکثریت تھی یا عسکریت ؟

سنجرانی باپ کے امیدوار تھے یا مائی باپ کے؟اکثریت تھی یا عسکریت ؟
(باپ) کے امیدوار نے ان سب آوازوں کو خاموش کر دیا جو کہتے تھے حکومت مدت پوری کرے گی یا نہیں
جمہوریت کا راگ الاپنے والوں کو پتہ ہے عدم اعتماد جمہوریت کیلئے نہیں ایک ادارے کو نیچا دکھانے کیلئے تھی
ڈان لیکس سے صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام ہونے پر اب ہر طرف یہ بحث ہو رہی ہے کہ یکم اگست کا دن تاریخ میں سیاہ دن قرار دیا جائے ، آج سنجرانی جیت گئے جمہوریت ہار گئی ، آج اکثریت ہار گئی عسکریت جیت گئی ، اسٹیبلشمنٹ نے یہ کر دیا وہ کر دیا ، کوئی ہارس ٹریڈنگ کا نام لے رہا ہے اور کوئی اسے پیسے کے استعمال کا رزلٹ قرار دے رہا ہے لیکن سب کو یہ بھی پتہ ہے کہ سنجرانی کو جمہوریت کے خلاف کوئی کام کرنے پر نہیں ، جمہوری عمل میں رکاوٹ بننے پر نہیں ، اپوزیشن کو مناسب وقت دینے پر نہیں ، کسی آئینی ترمیم میں رکاوٹ بننے پر نہیں صرف ایک ادارے کو نیچا دکھانے کے لئے تحریک عدم اعتماد لے کر آئے تھے اور پھر عملوں کا دارومدار نیتوں پر ہوتا ہے جیسی کرنی ویسی بھرنی ، اگر کسی کو نیچا دکھانے کی کوشش تھی تو پھر محبت اور جنگ میں سب جائز ہوتا ہے جس کا زور لگا اس نے رزلٹ حاصل کر لیا ، ویسے اپوزیشن کی عدم اعتماد کی تحریک میں جہاں انہیں منہ کی کھانی پڑی ہے میں متفق نہیں لیکن کہتے ہیں کہ جہاں ایک ہی روز میں شہبا ز شریف نے مریم نواز جبکہ آصف زرداری نے بلاول کی اڑان کو بھی بریک لگائی ہے
بلوچستان عوامی پارٹی(باپ) سے تعلق رکھنے والے صادق سنجرانی جو مارچ 2018میں 57ووٹ حاصل کرکے چیئرمین سینٹ منتخب ہوئے تھے جمعرات کے روز پینتالیس ووٹ حاصل کر کے اپنی چیئرمینی بچانے میں کامیاب ہو ئے تو ، 2018میں پیپلز پارٹی کے امیدوار کی حمائت سے انہوں نے ستاون ووٹ حاصل کئے لیکن اب پیپلز پارٹی کی ظاہری مخالفت کے باوجود پوری اپوزیشن جس نے 2018کے انتخابات میں 46ووٹ حاصل کئے تھے اب پیپلز پارٹی کی حمایت سے پچاس ووٹوں پر پہنچ چکی ہے اور اگر تین ووٹ مزید مل جاتے تو اپوزیشن آج حکومت کی جگہ بغلیں بجا رہی ہوتی کیونکہ سب کو یہ بھی معلوم ہوا کہ کہ وہ باپ کے امیدوار بھی تھے اور مائی باپ کے بھی
پوری دنیا نے دیکھا کہ عدم اعتماد کی اس تحریک میں 64ارکان نے کھڑے ہو کر چیئرمین کے خلاف عدم اعتماد کیا جب سب اپوزیشن ارکان کھڑے ہو کر عدم اعتماد کر رہے تھے تو اپنی اپنی پارٹی کے انتہائی مخلص اور وفادار ارکان بھی شامل تھے جن کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا ان میں رحمان ملک بھی شامل تھے اور سلیم مانڈووا لہ بھی ،اسلام الدین شیخ ، سکندر مینگریو،سسی پلیجو ، شیری رحما ن کے ساتھ کلثوم پروین، ستارہ ایاز بھی کھڑے ہو کر عدم اعتماد کر چکے تھے ،اپنی اپنی پارٹی سے انتہائی مخلص ارکان میں میں مشاہد حسین سید، صلاح الدین ترمزی، عبدالقیوم ملک ،جاوید عباسی، کامران مائیکل، رانا مقبول اور سنیٹر طلحہ محمود اپنی اپنی پارٹیوں سے دلی لگاو اور پارٹی ڈسپلن کے پابند بھی ان ارکان میں تھے جنہوں نے کھڑے ہو کر چئیرمین سینٹ کے خلاف عدم اعتماد کا اظہار کیا
ایک ایسے وقت میں اب اپوزیشن کے ان ارکان پر بھی لازمی شک کیا جا رہا ہو گا جن میں پرویز رشید ، مشاہد اللہ خان ، نزہت صادق ، سلیم ضیا ،رضا ربانی، فاروق نائیک،کشو بائی،مولا بخش چانڈیو، مصطفی نواز کھوکھر،یعقوب ناصر،عائشہ فاروق رضا ، رانا محمود الحسن، صابر شاہ،شاہین ڈار حافظ عبدلکریم جیسے ارکان بھی شامل ہیں
ویسے تحریک عدم اعتما د کے رزلٹ کے بعد ان تمام افواہوں کو اور وہ لوگ جو روز فون کر کے یا ہر جگہ روک کر پوچھتے تھے کہ حکومت کب جا رہی ، کیا حکومت یہ مدت پوری کرے گی ، اب سب کو پتہ چل گیا ہو گا اور تمام سوالوں کا جواب بھی مل گیا ہو گاکہ چیئرمین سینٹ کی سیٹ جو 38ووٹوں کے ساتھ تھی وہ تو بچ گئی اور قومی اسمبلی میں جہاں حکومت اور انکے اتحادی جماعتوں کے دس سے زیادہ ارکان ہیں وہ کیسے جلد جا سکتی ہے
یہ اس ملک کے سب سے بڑے ایوان کی صورتحال ہے جہاں ریاست مدینہ کے طرز کی حکومت بنانے کے دعوئے کیجا رہے ہیں اس ملک کے اعلی ترین ایوان میں صرف ایک گھنٹہ میں صورتحال بدلی کہ چودہ ارکان کا ضمیر ایوان میں کھڑے کچھ اور تھا اور ووٹ کی پرچی پر مہر لگانے اندر جاتے ہی جاگ گیا اور ایک تاریخ رقم ہو گئی
اگر جمہوریت کا راگ الاپنے والوں نے اپنے ورکرز کو ٹکٹ دیئے ہوتے تو آج وہ پارٹی کے وفادار ہوتے اور جب جمہوری پارٹیا ں سرمایہ داروں ، کاروباری شخصیات ، اور پیسے لے کر ٹکٹس تقسیم کرینگے تو رزلٹ اسی طرح کے آینگے اور جو لوگ پچاس پچاس کروڑ ارب ارب دے کر پارٹی ٹکٹ لینگے تو وہ پورے کیسے کرینگے اور اگر پورے نہیں کرینگے تو اتنے پیسے لگا کر مزید ایدھی سنٹر نا بنا لینگے تاکہ دنیا بھی سنور جائے اور آخرت بھی اور تاقیامت انکا نام بھی رہے
ویسے اگر شہباز شریف مریم نواز کو اور آصف زرداری بلاول کو اپنا آخری پتہ کھیلنے دیتے تو پھر اس کے بعد اب ان کے پاس کھیلنے کے لئے اوررہ کیا جاتا کہنے والے کہتے ہیں کہ اینٹ سے اینٹ بجھانے والے نے جہاں یہ کہا تھا کہ وہ جو پودہ لگاتے ہیں اسے کاٹتے نہیں اور پھر اس دن سے جب وہ بیان دیا تھا اینٹ سے اینٹ بجانے والا اس دن سے ان کی ان سے صلح نہیں ہوئی اور جمعرات کو بھی جو کچھ ہوا وہ اعتماد سازی تھی کہ بلوچستان میں حکومت بھی بدل دی ، حلف نہ اٹھانے کا مولانا کا کھیل بھی ختم کیا، وزیر اعظم اور صدر کے الیکشن میں بھی اپنا امیدوار کھڑا کروا کر حکومت کو محفوظ راستہ بھی دیا نواز شریف کو اندر ہونے کے بدلے برابری شو کرنے کے لئے نیب کے حوالے بھی ہو گیا سینٹ میں سنجرانی کو بحال بھی رکھا اب تو معافی دے دی جائے ایسے میں شہباز شریف کی بھی اعتماد سازی کے لندن یاترہ اگر کامیاب نہیں ہوئی نواز شریف کے بیٹے اور بیٹی پیسے دینے میں بات نہیں مان رہے تو بتائیں اور کوئی حکم ۔۔۔۔
کالم

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں