6

بھانڈ ہو یامیراثی کبھی نہیں بن سکتا صحافی

جب ٹی وی، اخبار، فیس بک، ٹوئیٹر، انسٹا گرام، واٹس ایپ یوٹیوب یا سوشل میڈیا نہیں ہوتا تھا تو۔۔
پرانے وقتوں حکمرانوں کو تعریفیں ، اعلانات یا میلادی کروانے کے لئے میراثی بھانڈ کی خدمات حاصل تھیں
پاکستان میں اور دنیا میں صحافت نے اتنے بڑے بڑے نام پیدا کئے جنہوں نے ساری زندگی اعلی صحافتی کردار کا علم بلند کئے رکھا کوڑے کھائے جیلوں میں گئے صعوبتیں برداشت کیں لیکن اپنے قلم کے زور پر دنیا کو سچ کا منہ دکھاتے رہے ،ہمیں اپنے ان تمام سینئر ز جنہوں نے قلم کی حرمت کو برقرار رکھا پر فخر ہے اور ان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرینگے اور ابھی بھی اس زمانے میں بھی دنیا ان قابل فخر سچ لکھنے والوں سے بھری پڑی ہے ، لیکن کسی بھی شعبہ میں چاہے صحافت ہو عدالت ہو سیاست ہو فوج کو یا کوئی اور جہاں اچھے لوگ ہوتے ہیں وہاں اس شعبہ میں کالی بھیڑیں بھی ہوتی ہیں
لیکن کچھ سیانے لوگوں نے صحافت کی تعریف ایسے کرتے ہیں جس سے کم از کم راقم متفق نہیں حالانکہ ہم مغل بادشاہوں اور پرانی فلموں میںدیکھا کرتے تھے ان وقتوں میں جس وقت اخبار ، ٹی وی چینل، فیس بک، ٹوئٹر، انسٹا گرام ، واٹس ایپ، یوٹیوب یا سوشل میڈیا نہیں ہوتا تھا اور پرانے وقتوں میںبادشاہوں نے اپنے ترقیاتی منصوبوں کو عوام تک پہنچانے کے لئے اور کوئی بھی حکم صادر یا کوئی اعلان کرنا ہوتا تھا تو چوکوں چوراہوں میں منادی کروائی جاتی تھی کہ بادشاہ سلامت کا یہ فرمان ہے اور ان منادی کروانے والوں کو اور دربار میں عوام کی خبریں بتانے والوں کو لطیفے سنانے والوں دل لبھانے والوں کو عام طور پر درباری مسخرے ، مصاحب، قصیدہ گو، دادا یا میراثی کہا جاتا تھا اور اس دور میں بھی عوام دادا یا میراثیوں بھانڈوں سے بہت ڈرتے تھے کہ ان کو خوش رکھا جائے کہیں یہ ہمارا (الٹا )( توا )نہ لگا دیں یا بدنام نا کر دیں، اس لئے وہ اپنے میراثی کو بھانڈ کو وقتا فوقتا اشرفیوں سے مالا مال رکھتے تھے ملاں دو پیادہ اور کئی ایسے نام بہت مشہور ہیں
اور پھر ہر گاوں میں شادی کے یا کسی خوشی کے موقع پر مقامی میراثی بن بلائے جب بارات میں آتے تھے تو سب باراتی بڑھ چڑھ کر (ودھائی)( اشتہار) دیا کرتے تھے کہ یہ ہماری تعریف کرے اور کہیں الٹا (ڈگا )ہی نا لگا دے، کہتے ہیں کہ ایک گاو ں میں چوہدریوں کے ہاں بارات تھی اور بہت اچھا کھانا پکا تھا لیکن اس میں تھوڑا سا نمک زیادہ ہو گیا تھا ایسے میں چوہدریوں نے دادے کی (میراثی) کی خدمت(اشتہار) اچھی نہیںکی تھی باہر آتے ہی جیسے ہی لوگوں نے دادے سے پوچھا کہ سناو آج چوہدریوں کی بارات تھی آپ بھی ادھر موجود تھے کیسا لگا تو دادے کے کہنے کا انداز دیکھیں۔۔ کہا۔۔ ہا ہا ۔۔۔کیا بات تھی چوہدریوں کی بارات کی اتنا کچھ پکایا ہوا تھا میرے خیال میں کئی لاکھ روپے کا تو انہو ں نے نمک ہی ڈال دیا تھا جیسے ہی چوہدریوں کو پتہ چلا انہوں نے فوری طور پر دادے کو 27×4دے کرخوش کر دیا جس کے بعد ۔۔۔۔۔
اور پھر جب بارات(الیکشن) میں کسی نے اپنی تعریف کروانی ہوتی ہے تو وہ وڈا چوہدری شہر کے بھانڈوں کو پہلے ہی اچھا سا سوٹ (اشتہار) دے دیتے ہیں اور جیسے ہی بارات میں ویلوں کا یا جگتوںکا وقت آتا بھانڈ اتنے اچھے انداز میں اس ایڈوانس ودھائی دینے والے کی تعریفیں کرتا ہے کہ بارات کی اکثریت اس کی ووٹر بن جاتی ہے اور جس کا ڈغا لگوانا ہوتا اس کے سارے کرپشن کے کیس چاہے وہ پاناما ہوں یا سوئس بینک وہ سرے محل کی باتیں ہوں یا پارک لین ہوں وہ (بھانڈ)ایسے انداز میںجگتیںکرتا تھا کہ وہ دو تہائی لینے کے باوجود کبھی سترہ سیٹیں اور کبھی ساٹھ سیٹیں ہی لے پاتا ہے اور اگر بھانڈ کسی کی تعریف کر دے تو پھر چونکہ اسے پہلے ہی خوش کر دیا جاتا تھا ۔اس کی توپوں کا رخ اپوزیشن کی طرف جبکہ تعریفوں کے پل بھاندنے کی صورت میںلیڈرز اس جماعت میں ٹولیوں کی صورت میںشامل ہوتے ہیں
کہتے ہیں کہ ایک وقت میں ایک بڑے بھانڈکا کردار بہت مشہور تھا کہ جب لوگ دیکھتے تھے کہ یہ دادا بادشاہ وقت کے خلاف جگتیں کررہا ہے تو لوگ سمجھ جایا کرتے تھے کہ اب اس کی حکومت گئی اور پھر دادا جب کسی اور کی لیڈیں لگایا کرے تو لوگ سمجھ جایا کرتے تھے کہ اب فلاں پارٹی کی حکومت آنے والی ہے
اب زمانے نے جب ترقی کی تو ان دادوں کو بھانڈوں کو شوبز فنکار کہا جانے لگا اور جب کسی اچھے گھرانے کا لڑکا گانا گاتا تھا تو پرانے وقتوں میں وہ شرم محسوس کرتے تھے کہ ان کی اولاد نے کیا میراثیوں والا کام شروع کر دیا ہے اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ جب لکھاریوں ،شاعروں ادیبوں کی جگہ پرائیڈ آ ف پرفارمنس ایوارڈ اور تمغے شو بز(بھانڈوں) سے وابستہ شخصیات کو ملنے شروع ہو گئے تو پھر سب نے ان کو میراثی کہنا بند کر دیا اور وہ معزز ہو گئے اور پھر ہر دور میں جس نے اچھی بھانڈ بازی کی اسے ایوارڈ ،پلاٹ عہدے ملنا شروع ہو گئے حکومت میں کی تو اسے اسی دور میںاور اگر اپوزیشن میں کی تو حکومت میں آتے ہی ان( بھانڈوں) شوبز فنکاروں ، اینکر(ایں کر(ایسے کر) کو انکی کارکردگی کی بنیاد پر عہدے ملنا شروع ہو گئے سب نے دیکھا کہ بادشاہ سلامت جب کسی کی کارکردگی سے خوش ہوئے تو پہلے وقتوں میں انہیں اشرفیوں سے مالا مال یا جاگیر الاٹ کیا کرتے تھے لیکن اب نئے دور میں کسی کو پلاٹ ، بیرونی دورے، وزیر ، مشیربنایا گیا کسی کوپی ٹی وی میں کسی کو پیمرا میں چیئرمین لگایا گیاکسی کوسینٹ کسی کو قومی اسمبلی کسی کی معاون خصوصی کسی کو مشیر اور کسی کی اولاد کو خصوصی سیٹ پر لایا گیا ۔
لیکن لگتا ہے کہ اس وقت کے بادشاہوں نے خود سے اب بھانڈ پن شروع کر دیا ہے تو شاید ان ایوارڈ یافتہ بھانڈوں کی ضرورت نہ رہے کیونکہ اب خود حکومتی اور اپوزیشن ارکان نے وہ کام اپنے سوشل میڈیا کے استعمال نے کمی پوری کرنا شروع کر دی ہے اور جس قسم کی اب زبان اور ٹویٹس ہو رہی ہیں ایسے شوبز(میراثیوں ) کو فکر پڑ گئی ہے لیکن کسی بھی میراثی کو فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں نوکری ہے تو بھی ٹھیک نہیں ہے تو بھی ٹھیک۔۔ نہیں بھی تو فیس بک اور یو ٹیوب کے ہوتے ہوئے اب وہ بھوکے نہیں مریں گے اگر انہوں نے بھانڈ پن نا چھوڑا۔۔۔۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں