7

آصف علی زرداری کا 10 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور

اسلام آباد کی احتساب عدالت نے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے خلاف 10 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرلیا۔

احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے آصف علی زرداری کو 21 جون کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا۔

خیال رہے کہ قومی احتساب بیورو (نیب) نے آج صبح زیر حراست آصف علی زرداری کا جسمانی ریمانڈ حاصل کرنے کے لیے انہیں احتساب عدالت میں پیش کیا تھا۔

اس حوالے سے بتایا گیا کہ نیب ٹیم نے احتساب عدالت میں آصف علی زرداری کو پیش کرنے کے بعد عدالت سے ان کے 14 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی تھی۔

دوان سماعت آصف علی زرداری نے استدعا کی کہ میں شوگر کا مریض ہوں اور رات کو میری شوگر لو ہو جاتی ہے اس لیے اٹینڈنٹ دیا جائے جو رات کو شوگر چیک کرے۔

جس پر اسیکیوٹر نیب نے مؤقف اختیار کیا کہ یہ ان کی زندگی کا مسئلہ ہے اور ہمارا اس پر کوئی اعتراض بھی نہیں، احتساب عدالت کو بھی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔

آصف علی زرداری نے مزید کہا کہ اٹینڈنٹ 24 گھنٹے میرے پاس بیٹھا نہیں رہے گا جب ضرورت ہو گی تو اس کو بلایا جائے گا۔

سابق صدر کا طبی معائنہ

اسلام آباد احتساب عدالت میں سابق صدر کو پیش کرنے سے قبل تین رکنی طبی ٹیم نے ان کا طبی معائنہ کیا تھا۔

نیب کے ذرائع نے بتایا کہ ’طبی ٹیم نے آصف علی زرداری کے جسمانی ریمانڈ کے لیے انہیں تندرست قرار دیا‘۔

علاوہ ازیں بتایا گیا کہ احتساب عدالت میں پیپلز پارٹی کے سندھ کے وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ سمیت دیگر پارٹی رہنما بھی موجود تھے۔

آصف زرداری کو پیش کیے جانے کے موقع پر احتساب عدالت اور اس کے اطراف میں سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے اور وفاقی حکومت نے پولیس اور رینجرز پر مشتمل تقریباً 2 ہزار سیکیورٹی اہلکاروں کو تعینات کیا تھا۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز نیب نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں جعلی اکاؤنٹس کیس میں درخواست ضمانت مسترد ہونے کے بعد آصف علی زرداری کو زرداری ہاؤس اسلام آباد سے گرفتار کیا تھا۔

خیال رہے کہ فریال تالپور کے وارنٹ گرفتاری جاری نہ ہونے کے باعث انہیں گرفتار نہیں کیا جاسکا جبکہ سابق صدر کی گرفتاری کے لیے نیب نے وارنٹ گزشتہ روز جاری کیے تھے۔

نیب کی ٹیم سابق صدر کی گرفتاری کے لیے اسلام آباد میں ان کی رہائش گاہ ’زرداری ہاؤس‘ پہنچی تھی جہاں انہیں مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

ذرائع ابلاغ کی رپورٹ کے مطابق آصف زرداری قومی اسمبلی سے اپنی گرفتاری دینا چاہتے تھے تاہم انہوں نے بعد میں اپنا فیصلہ تبدیل کرتے ہوئے زرداری ہاؤس سے ہی گرفتاری دینے کا فیصلہ کیا۔

نیب کی 15 ٹیم میں سے 6 اہلکاروں کو زرداری ہاؤس میں داخلے کی اجازت دی گئی تھی، جنہوں نے آصف زرداری کو گرفتار کیا اور انہیں لے کر نیب دفتر راولپنڈی روانہ ہوگئے۔

آصف علی زرداری اور ان کی بہن عدالتی فیصلے سے قبل ہی احاطہ عدالت سے چلے گئے تھے۔

ذرائع کے مطابق نیب نے سابق صدر کی گرفتاری کے لیے 2 ٹیمیں تشکیل دی تھیں جن میں سے ایک زرداری ہاؤس جبکہ ایک پارلیمنٹ ہاؤس پہنچی تھی۔

ذرائع ابلاغ کی رپورٹ کے مطابق زرداری ہاؤس میں نیب کی ٹیم کو سابق صدر کی گرفتاری میں مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

جعلی اکاؤنٹس کیس

واضح رہے کہ وفاقی تحقیقاتی ادارے کی جانب سے 6 جولائی کو حسین لوائی سمیت 3 اہم بینکرز کو منی لانڈرنگ کے الزامات میں حراست میں لیا گیا تھا۔

حسین لوائی اور دیگر کے خلاف درج ایف آئی آر میں اہم انکشاف سامنے آیا تھا جس کے مطابق اس کیس میں بڑی سیاسی اور کاروباری شخصیات کے نام شامل تھے۔

ایف آئی آر کے مندرجات میں منی لانڈرنگ سے فائدہ اٹھانے والی آصف علی زرداری اور فریال تالپور کی کمپنی کا ذکر بھی تھا، اس کے علاوہ یہ بھی ذکر تھا کہ زرداری گروپ نے ڈیڑھ کروڑ کی منی لانڈرنگ کی رقم وصول کی۔

ایف آئی آر کے متن میں منی لانڈرنگ سے فائدہ اٹھانے والی کمپنیوں اور افراد کو سمن جاری کیا گیا جبکہ فائدہ اٹھانے والے افراد اور کمپنیوں سے وضاحت بھی طلب کی گئی تھی۔

ایف آئی آر کے متن میں مزید کہا گیا تھا کہ اربوں روپے کی منی لانڈرنگ 6 مارچ 2014 سے 12 جنوری 2015 تک کی گئی جبکہ ایف آئی اے کی جانب سے آصف زرداری اور فریال تالپور کو مفرور بھی قرار دیا گیا تھا۔

جس کے بعد جعلی اکاؤنٹس کیس اور 35 ارب روپے کی فرضی لین دین سے متعلق کیس میں ایف آئی اے کی درخواست پر آصف علی زرداری اور فریال تالپور کا نام ای سی ایل میں ڈال دیا گیا۔

تاہم چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے اس بات سے انکار کیا تھا کہ پیپلز پارٹی کے دونوں رہنما منی لانڈرنگ کیس میں ملزم ہیں۔

جس کے بعد نگراں حکومت کی جانب سے آصف علی زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نکال دیا گیا تھا۔

بعدازاں فریال تالپور نے لاڑکانہ میں سندھ ہائیکورٹ کے ڈویژن بینچ سے ضمانت قبل از گرفتاری حاصل کرلی تھی۔

علاوہ ازیں 35 ارب روپے کے جعلی اکاؤنٹس کیس میں 15 اگست کو ایف آئی اے نے اومنی گروپ کے چیئرمین انور مجید اور عبدالغنی مجید کو گرفتار کرلیا تھا لیکن ملزمان کی جانب سے صحت کی خرابی کا دعویٰ کیا گیا تھا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں