5

نیب نے حمزہ شہباز کو احاطہ عدالت سے گرفتار کرلیا

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے نائب صدر اور پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز کو قومی احتساب بیورو (نیب) نے منی لانڈرنگ اور آمدن سے زائد اثاثوں کے مقدمات میں گرفتار کرلیا۔

لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے حمزہ شہباز کی درخواست ضمانت پر سماعت کی۔

واضح رہے کہ حمزہ شہباز کی ضمانت آج 11 جون کو ختم ہوگئی تھی، جس میں توسیع کے لیے انہوں نے عدالت عالیہ سے رجوع کیا تھا، تاہم عدالت کی جانب سے کہا گیا کہ ضمانت میں توسیع کا معاملہ احتساب عدالت دیکھے گی جس پر لیگی رہنما نے اپنی درخواست واپس لے لی اور انہیں گرفتار کرلیا گیا۔

سماعت کے دوران پراسیکیوٹر نیب جہانزیب بھروانہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ حمزہ شہباز شریف کے 38 کروڑ 80 لاکھ کے اثاثے ان کی آمدن سے مطابقت نہیں رکھتے۔

انہوں نے بتایا کہ 2015 سے 2018 تک حمزہ شہباز نے اثاثے ظاہر نہیں کیے اچانک حمزہ شہباز نے 2019 میں کہا کہ انکے اثاثے 5 کروڑ سے 20 کروڑ ہو گئے ہیں۔

نیب وکیل نے یہ بھی کہا کہ حمزہ شہباز سے پوچھا گیا کہ بیرون ملک سے جو پیسے آتے ہیں ان کا زریعہ بتا دیں لیکن حمزہ شہباز نہیں بتا سکے۔

عدالت نے استفسار کیا کہ کیا حمزہ شہباز عدالت میں موجود ہیں، جس پر ان کے وکیل سلمان بٹ نے بتایا کہ جی حمزہ شہباز کمرہ عدالت میں موجود ہیں۔

حمزہ شہباز کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ نیب نے صرف گرفتاری کی وجوہات اور انکوائری اور تفتیش سے متعلق دستاویزات دیں۔

عدالت نے استفسار کیا کہ کیا منی لانڈرنگ کیس میں حمزہ شہباز کے وارنٹ گرفتاری چیئرمین نیب نے جاری کیے ہیں جس پر ان کے وکیل نے جواب دیا کہ چیئرمین نیب نے ان کے موکل کے وارنٹ گرفتاری جاری کر رکھے ہیں۔

جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے ریمارکس دیے کہ ہم جو بھی فیصلہ کریں گے بالکل قانون کے مطابق کریں گے۔

پراسیکیوٹر نیب نے عدالت کو بتایا کہ حمزہ شہباز نے متعدد بینک اکاونٹس سے مشکوک ٹرانزیکشنز کیں اور ان کے خلاف درخواست بھی موصول ہوئی۔

انہوں نے بتایا کہ حمزہ شہباز سے آف شور کمپنیوں کے بارے میں پوچھا گیا جس کے وہ تسلی بخش جواب نہیں دے سکے۔

حمزہ شہباز کے وکیل نے عدالت سے استدعا کی ان کی ضمانت میں توسیع کی درخواست کو منظور کیا جائے جس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ یہ ایک آئینی درخواست ہے جس میں توسیع کا اختیار احتساب عدالت کے پاس ہے۔

جس پر لیگی رہنما کے وکیل نے درخواست واپس لے لی اور جس کی بنیا پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے حمزہ شہباز کی ضمانت کی درخواستیں خارج کردیں۔

ضمانتیں خارج ہونے کے بعد مسلم لیگ (ن) کے نائب صدر حمزہ شہباز نے اپنے وکلا سے مشاورت کی اور پھر نیب کو گرفتاری دے دی۔

نیب کی ٹیم عدالت میں موجود تھی جس نے کمرہ عدالت سے باہر آتے ہی حمزہ شہباز کو احاطہ عدالت سے گرفتار کرلیا۔

واضح رہے کہ حمزہ شہباز کے خلاف نیب کی جانب سے رمضان شوگر ملز، آمدن سے زائد اثاثہ جات اور صاف پانی کیس میں ریفرنس دائر کیے گئے ہیں۔

رمضان شوگر ملز کے لیے حمزہ شہباز نے ایک نالہ تعمیر کروایا جس کی وجہ سے قومی خزانے کو 21 کروڑ 30 لاکھ روپے کا نقصان ہوا۔

ایک روپے کی کرپشن ثابت ہوجائے تو سیاست چھوڑ دوں گا، حمزہ شہباز

عدالت میں پیشی کے لیے آتے ہوئے لیگی نائب صدر حمزہ شہباز نے میڈیا سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر ان کے خلاف ایک روپے کی کرپشن بھی ثابت ہوگئی تو وہ سیاست چھوڑ دیں گے۔

انہوں نے کہا کہ میں آج بھی قائم ہوں کہ میرے معاملے میں پارلیمانی کمیشن قائم کیا جائے۔

حمزہ شہباز نے کہا کہ جب دامن صاف ہوتا ہے تو اللہ کی ذات ہمت دیتی ہے، چیئرمین نیب نے میرے حوالے سے اپنا بغض ایک آرٹیکل میں دیا۔

حمزہ شہباز کی گرفتاری کیلئے نیب کے چھاپے

واضح رہے کہ 5 اپریل 2019 کو آمدن سے زائد اثاثہ جات اور مبینہ منی لانڈرنگ کیس میں نیب کی ٹیم نے لاہور کے علاقے ماڈل ٹاؤن میں شہباز شریف کی رہائش گاہ پر حمزہ شہباز کی گرفتاری کے لیے چھاپہ مارا تھا، تاہم وہ انہیں گرفتار نہیں کرسکی تھی۔

اس واقعے کے اگلے روز 6 اپریل کو ایک مرتبہ پھر نیب کی ٹیم مذکورہ کیسز میں حمزہ شہباز کی گرفتاری کے لیے ماڈل ٹاؤن کی رہائش گاہ پر پہنچی تھی اور گھر کا محاصرہ کرلیا تھا۔

لاہور کے علاقے ماڈل ٹاؤن میں شہباز شریف کی رہائش گاہ 96 ایچ میں موجود حمزہ شہباز کی گرفتاری کے لیے نیب کا یہ دوسرا چھاپہ تھا۔

تاہم نیب کی یہ کارروائی ڈرامائی صورتحال اختیار کر گئی تھی اور تقریباً 4 گھنٹے کے طویل محاصرے کے باوجود نیب ٹیم کے اہلکار رہائش گاہ کے اندر داخل نہیں ہوسکے تھے۔

حمزہ شہباز کے قانونی مشیر نے نیب کے وارنٹ کو غیر قانونی قرار دیا تھا اور کہا کہ لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ موجود ہے کہ حمزہ شہباز کی گرفتاری سے 10 روز قبل انہیں آگاہ کرنا ہوگا۔

بعد ازاں اسی روز لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سردار شمیم نے حمزہ شہباز کی عبوری ضمانت کی درخواست کو منظور کرتے ہوئے نیب کو 8 اپریل تک حمزہ شہباز کی گرفتاری سے روک دیا تھا۔

جس کے بعد 8 اپریل کو حمزہ شہباز لاہور ہائیکورٹ میں پیش ہوئے تھے اور ضمانت کی درخواست دائر کی تھی، جس کے بعد انہیں 17 اپریل تک ضمانت دے دی گئی تھی، جس میں بعد میں کئی مرتبہ توسیع کی گئی تھی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں