11

ملکی اورغیرملکی کوچ کی بحث ایک بار پھر سر اٹھانے لگی

جو کھلاڑی اپنا اچھا وقت گزار چکے بورڈ ان کو کپتان بنانے کی غلطی نہ کرے
 فوٹو: فائل

جو کھلاڑی اپنا اچھا وقت گزار چکے بورڈ ان کو کپتان بنانے کی غلطی نہ کرے فوٹو: فائل

کراچی:  ملکی اور غیرملکی کوچ کی بحث ایک بار پھر سراٹھانے لگی جب کہ سابق کپتان جاوید میانداد نے ’لیپ ٹاپ ماہرین‘ کے خلاف آواز بلند کردی۔

ورلڈ کپ کے بعد موجودہ کوچز کی چھٹی اور نئے اسٹاف کی بھرتی کے امکانات کے ساتھ ہی ایک بار پھر ملکی اور غیرملکی کوچز کی بحث ہونے لگی ہے۔

سابق کپتان اور عظیم بیٹسمین جاوید میاندار نے سرکاری خبررساں ایجنسی سے بات چیت میں کہا کہ صرف مقامی کوچ کا تقرر کرنا چاہیے جوکرکٹنگ سسٹم کو اچھی طرح سمجھتا اور اپنے اسٹیٹس کے معیار سے مضبوط ٹیم تشکیل دے سکے۔

انھوں نے کہا کہ اگر ویوین رچرڈز یا ای ین بوتھم جیسے عظیم پلیئرز کو کوچنگ کی ذمہ داری دی جائے تو بات سمجھ میں بھی آتی ہے کہ وہ پاکستان کرکٹ میں کسی قسم کی صلاحیت لاسکتے ہیں ، بصورت دیگر غیرملکی کوچز ہمارے پلیئرز کو آگے لے ہی نہیں جا سکتے، رچرڈز اور بوتھم کھلاڑیوں کو وہ سب کچھ سکھا سکتے ہیں جو انھوں نے اپنے کیریئر کے دوران خود کھیلتے ہوئے سیکھا، ایسے کوچز جنھوں نے صرف کورس کررکھے ہوں اور کمپیوٹر کے آگے بیٹھ کر اینالسٹ سے کھلاڑی کو بہتر نہیں بنا سکتے۔

جاوید میانداد نے کہا کہ ہمارے وہ سابق کھلاڑی جنھوں نے کھیل میں اپنا نام کمایا انھیں کوچنگ کی ذمہ داری دینا چاہیے۔

محمد حفیظ، عماد وسیم، بابر اعظم میں سے کسی ایک کو ون ڈے ٹیم کی قیادت سونپنے کے امکانات پر میانداد نے کہاکہ پی سی بی کو پہلے اپنی ترجیحات کا تعین کرنا چاہیے، کسی بھی ایسے پلیئر کو ذمہ داری نہ دی جائے جو اپنے اچھے دن گزار چکا ہو، بورڈ کو فیصلہ کرنا ہے کہ اسے آگے کی جانب جانا ہے یا پیچھے، نئے آغاز کیلیے بطور قائد نیا چہرہ سامنے لانا چاہیے۔

جاوید میانداد نے ایک بار پھر ڈپارٹمنٹل کرکٹ اور ڈومیسٹک کرکٹ میں 11 سے 12 ٹیموں کو کھلانے کی اہمیت پر بھی زور دیا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں