5

ہر ہاتھ میں ٹشو، ڈرامہ ’’میرے پاس تم ہو‘‘ نے سب کو رلا دیا

سپر ہٹ ڈرامہ سیریز ’میرے پاس تم ہو‘ کی آخری قسط سنیما گھروں میں دکھانے کا اعلان ہوا تو ملک بھر میں ڈرامے کے شائقین نے فورا بکنگ کروا دی۔ میں بھی بڑی مشکل سے ساری صحافتی توانائی لگا کر اسلام آباد کے معروف سنیما کی ایک ٹکٹ بک کروا سکا۔
ڈرامے سے ایک گھنٹا پہلے پہنچنا پڑا اور زندگی میں پہلی بار چھ سو روپے کسی ڈرامے پر لگائے۔ سینما میں عجیب منظر تھا، لوگ ٹکٹوں کے لیے سٹاف کی منتیں کر رہے تھے۔
آٹھ بجے تو کیا 10 بجے اور 12 بجے کے شوز بھی مکمل بک تھے۔ ہر کوئی متجسس تھا آخر آج ہو گا کیا؟
کیا دانش معاف کردے گا مہوش کو؟ کیا مہوش مر جائے گی یا شہوار کی جان جائے گی؟ آخر انجام کیا ہو گا؟ ایسا تجسس تو شاید ورلڈکپ کے پاکستان انڈیا میچ کے لیے بھی نہیں ہوتا۔
شائقین میں ہر طرح کے لوگ تھے۔ جتنی خواتین تقریباً اتنے ہی مرد۔ لوگ گروپس کی شکل میں آئے ہوئے تھے۔ ایک سرکاری ادارے سے ریٹائرڈ خاتون خدیجہ سے بات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ وہ اپنی تین بہنوں کے ساتھ ڈرامے کی آخری قسط دیکھنے آئی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ وہ ڈرامے کے لیے اتنی پرجوش تھیں کہ ان کے گھر آج مہمان آ گئے تھے مگر ان کو گھر پر ہی چھوڑ کر ڈرامہ دیکھنے آ گئیں۔ ’بھئی ٹکٹیں جو لے لیں تھیں۔‘
ڈرامے کے بارے میں خدیجہ کا کہنا تھا کہ مہوش جیسی بے وفائی کی کہانیاں معاشرے میں انہونی نہیں ہیں ان کے اپنے ایک عزیز کے ساتھ ایسا ہو چکا ہے جہاں خاتون نے اپنے شوہر اور چھوٹے بچے کو چھوڑ کر ایک بہت بڑے افسر سے شادی کر لی اور اب بچے کو نانی پال رہی ہے۔
تاہم خدیجہ کی ساتھ آئی چھوٹی بہن کا کہنا تھا کہ ڈرامے میں خواتین کی تضحیک کی گئی ہے۔
جب ان سے پوچھا کہ اس کے باوجود آپ پیسے دے کر آخری قسط کیوں دیکھنے آئی ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ انہیں تجسس ہے کہ ڈرامہ آخر کس حد تک جائے گا؟
ڈرامہ شروع ہوا تو سینما ہال کے اندر تھوڑی بہت کھسر پھسر جاری تھی کیونکہ پہلے 20 منٹ تو پرانی اقساط کے حصے دکھائے جاتے رہے۔ پھر نئی قسط شروع ہوئی تو سناٹا چھا گیا۔
گاہے بگاہے ڈرامہ نگار خیل الرحمن قمر کے لکھے گئے ڈائیلاگز پر داد کی آواز بلند ہو جاتی تھی۔ مگر جوں ہی ڈرامے کے ہیرو دانش کو دل کا دورہ پڑ گیا تو ہال میں حیرت بھری آوازیں بلند ہوئیں۔ اس کے بعد انتہائی جذباتی مناظر کے بعد دانش کی موت کا اعلان ہوا۔ ساتھ ہی ہال میں کسی کی غصہ بھرئی آواز آئی ’خلیل الرحمن قمر یہ تم نے کیا کر دیا؟‘
سنیما میں خیل الرحمان قمر کے ڈائیلاگز پر داد کی آواز بھی بلند ہو جاتی تھی، فوٹو: سوشل میڈیا
لائٹس آن ہوئی تو ہال میں بیٹھے تقریباً ہر شخص کے ہاتھ میں ٹشو نظر آرہا تھا اور سب صدمے اور غصے کی حالت میں نظر آ رہے تھے۔ ڈرامہ ٹھیک نو بج کر 20 منٹ پر ختم ہو گیا۔
باہر نکلتے ہوئے جس کسی سے بات ہوئی سب ڈرامے کے مصنف خلیل الرحمن قمر کو کوس رہے تھے۔ ’کیا بکواس تھا یہ؟‘ ایک ادھیڑ عمر خاتون جو اپنے بیٹے کے ساتھ ڈرامہ دیکھنے آئیں تھیں بولیں۔
میں نے پوچھا آپ کو کیوں اچھا نہیں لگا؟  ان کا جواب تھا: ’دنیا میں کوئی آدمی ایسا نہیں ہوتا جیسا دانش کو دکھایا گیا ہے۔ بے وفائی پر دل کا دورہ پڑ گیا اور مر گیا۔ ہم نے تو اپنے کئی مہینے ضائع کر دیے۔‘
باہر نکلنے والوں میں ملک کے معروف نیورو سرجن پروفیسر خلیق الزمان بھی تھے جو اپنی سرجن بیگم پروفیسر ثمینہ خلیق کے ساتھ ان کے بقول ’مجبورا‘ ڈرامہ دیکھنے آئے تھے۔
مرد اور خواتین گروپس کی شکل میں ڈرامے کی آخری قسط دیکھنے سنیما گھروں میں آئے
پروفیسر صاحب کا کہنا تھا کہ انہیں ڈرامہ بالکل پسند نہیں آیا خاص طور پر اس کا موضوع۔ ’یہ ہم کیسے ڈرامے بنا رہے ہیں؟ ہر ڈرامے میں گلیمر مہنگے صوفے، بڑے گھر، گاڑیاں چکا چوند جب ملک کے طول و عرض کے گاؤں دیہات کے غریب بچے بچیاں دیکھتے ہیں تو ان کے اندر احساس محرومی اور منفی مادیت پرستی پیدا ہوتی ہے جس کے نتیجے میں لوگ اخلاقیات بھول کر دولت کی بھیڑ چال میں لگ جاتے ہیں‘۔
ان کا کہنا تھا کہ آج ہی انہوں نے ایک ایسی باہمت خاتون کی سرجری کی جس نے مانسہرہ کے ایک گاؤں میں رہ کر بیوہ ہو جانے کے باوجود اپنے گیارہ بچوں کی پرورش کی ہے۔ ’کیا ہمت کی ایسی کہانیاں ڈراموں میں نہیں دکھائی جا سکتیں؟ کیسی انسانیت کی خدمت کی جاتی ہے، کیسے زندگی ہمت سے گزاری جاتی ہے؟‘
 تاہم تنقید اور تنازعات کے باوجود اس میں شک نہیں کہ ’میرے پاس تم ہو ‘ پاکستان کی تاریخ کے کامیاب ترین ڈراموں شمار کیا جائے گا۔ زیادہ تر ناظرین کو ڈرامہ اور اس کا موضوع بہت پسند آیا تھا تاہم اس کے اختتام پر شاید ہی کسی نے اچھی رائے دی ہو۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں