9

سستی ، اچھی اور بے پناہ خصوصیات والی نئی گاڑی خریدنے جانے سے پہلے یہ تحریر ضرور ملاحظہ کیجیے

لاہور(ویب ڈیسک) حکومتوں میں کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو اُس کی نظروں سے اوجھل نہ بھی ہوں مگر منافع خوروں، کمیشن خوروں، سود خوروں اور مافیاﺅں کی جانب سے دبا دی جاتی ہیں اور سب اچھا کی رپورٹ دے کر ایک خاص طبقے کو فائدہ پہنچایا جاتا ہے، یہی حال آج کل کار مینوفیکچرنگ کمپنیوں کا ہے

نامور کالم نگار علی احمد ڈھلوں اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔ جو ایسی گاڑیاں عوام کو چلانے کے لیے دے رہی ہیں جو انٹرنیشنل سٹینڈرڈ سے بھی تیسرے درجے پر ہوتی ہیں، بلکہ بسا اوقات تو ایسی پابندیاں لگائی جاتی ہیں یا”کھلاڑی“ ایسے سکیمیں لڑاتے ہیں کہ آپ کو باہر سے منگوائی جانے والی کسی بھی چیز کے بارے میں سوچنے بھی نہیں دیا جاتا، مثلاََ ٹیکس اس قدر لگا دیے جاتے ہیں، کسٹم ڈیوٹی میں بے تحاشا اضافہ کر دیا جاتا ہے، اور رجسٹریشن وغیرہ کے نام پر بھی بہت سا پیسہ بٹورا جاتا ہے۔ چلیں مان لیا کہ یہ سب کچھ اس لیے کیا جاتا ہے تاکہ ملک کا پیسہ باہر نہ جائے، بہت

اچھی بات ہے! لیکن یہ کیا کہ اپنے ملک کی کوئی بھی کمپنی گاڑیاں نہیں بنا رہی اور کنزیومر کو پھر بھی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے سپرد کیا جا رہا ہے۔ اور جو ملٹی نیشنل کمپنیاں بیرون ملک ہائی سٹیڈرڈ کی گاڑیاں 30لاکھ پاکستانی روپے میں فروخت کر رہی ہیں وہی کمپنیاں پاکستان کے لیے 30لاکھ والی گاڑی بناتی ہے تو وہ کوالٹی کے اعتبار سے اس قدر Lowسٹینڈرڈ ہوتی ہے کہ آپ ایسی گاڑی کسی ترقی یافتہ ملک میں چلانے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے۔ کمپنیوں کے اس ڈبل سٹینڈرڈ کے پس پردہ کیا حقائق ہیں اس حوالے سے تو میں کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ ہمیں حکومت کی جانب سے پابند ضرور کیا جاتا ہے کہ آپ باہر سے گاڑی منگوانے کے بجائے یہیں اسمبل ہونے والی کمپنیوں سے گاڑیاں خریدیں۔ اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں

کہ صرف دو سال قبل یعنی 2018تک حکومتِ پاکستان درآمد شدہ گاڑیوں سے حاصل ہونیوالی ڈیوٹیز کی مد میں سو ارب روپے سالانہ کمارہی تھی جبکہ گاڑیوں کی یہ درآمدات حکومت کے سرکاری خزانے پر کسی طرح کا بوجھ بھی نہ تھیں کیونکہ اس کی اجازت حکومتِ پاکستان نے ان ستر لاکھ سے زائد بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کو دے رکھی تھی جو ملک کی معیشت میں سالانہ پچیس ارب ڈالر سے جان ڈالتے ہیں۔ حکومتی پالیسی کے تحت جو پاکستانی دو سال سے زائد پاکستان سے باہر گزار لے وہ ایک گاڑی بھاری بھرکم ڈیوٹی ادا کرکے پاکستان لا سکتا ہے۔ یہ پاکستانی اپنی لائی ہوئی گاڑیوں کی مد میں حکومت کو سالانہ سو ارب روپے ڈیوٹیز کی مد میں ادا کررہے تھے

لہٰذا حکومتی خزانے میں صرف ٹیکس آتا تھا، جاتا یہاں سے کچھ بھی نہ تھا۔ پھر سالانہ 35 ہزار گاڑیوں کی درآمد سے لاکھوں پاکستانیوں کو روزگار ملنے لگا، عوام کو معلوم ہوا کہ معیاری گاڑی کیا ہوتی ہے، ائیر بیگ کس مرض کی دوا ہوتے ہیں، ایک لیٹر میں بیس سے پچیس کلومیٹر چلنے والی ہائبرڈ گاڑیوں کے بارے میں بھی معلوم ہوا، یہ بھی معلوم ہوا کہ جو غیر ملکی کمپنیاں پاکستان میں ٹین ڈبے جیسی پتلی چادر کی گاڑیوں کی باڈیاں تیار کرکے عوام کی جان سے کھیل رہی ہیں وہی کمپنیاں اسی قیمت میں اپنے ملک میں لوہا لاٹ جیسی گاڑیاں فروخت کررہی ہیں۔ پاکستان میں تیار ہونے والی گاڑیاں پیٹرول بھی زیادہ استعمال کرتی ہیں جبکہ پاکستان میں ہزاروں لوگ ایکسیڈنٹ کے دوران صرف ایئر بیگز نہ کھلنے کی وجہ سے اپنی جان کھو بیٹھے

لیکن آج تک کسی کمپنی پر جرمانہ عائد نہیں کیا گیا۔ جاپان سمیت کئی ممالک کی گاڑیاں ہائبرڈ اور بجلی سے چلنے کی بدولت اب بیس سے پچیس کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلتی ہیں جس سے ان ممالک میں پیٹرول کا استعمال کافی کم ہو گیا ہے جبکہ ہلکی سی ٹکر کی صورت میں بھی گاڑیوں کے معیاری ایئر بیگز کار سواروں کی جان بچانے کے لیے جھٹ سے کھل جاتے ہیں، دوسری طرف پاکستان جیسے ملک میں جہاں پیٹرول نایاب اور مہنگا ہونے کے سبب ملک کی معیشت پر بوجھ سمجھا جاتا ہے یہاں آج تک مقامی اسمبلرز نئی ٹیکنالوجی پر چلنے والی گاڑیاں متعارف کرانے میں ناکام رہے ہیں جب مینو فیکچرنگ کے نام پر اسمبلنگ کرکے اربوں روپے کا نفع کمانے والے مافیا کو اندازہ ہوا کہ باہر سے آنیوالی گاڑیوں کے باعث پاکستانی عوام کو اچھی، معیاری اور نئی ٹیکنالوجی سے لیس گاڑیاں سستے داموں میسر آنے لگی ہیں تو اس مافیا نے شدید دباﺅ اور اثر ورسوخ استعمال کر کے موجودہ حکومت سے بیرونی گاڑیوں پر پابندی عائد کروا دی جس سے سالانہ پینتیس ہزار گاڑیوں کی درآمد اب کم ہو کر صرف دو ہزار گاڑیوں تک رہ گئی ہے جبکہ حکومت کو سالانہ سو ارب روپے جو ڈیوٹیز کی مد میں حاصل ہوتے تھے وہ کم ہو کر صرف دو ارب تک رہ گئے۔ جس کے بعد اب عوام کو مقامی طور پر اسمبل کی ہوئی غیر معیاری گاڑیاں استعمال کرنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ یمن جیسے ملک میں بھی گاڑی پر اتنے ٹیکسز نہیں جتنے یہاں ہیں۔ اگر یہ زائد ٹیکسز اور ظالمانہ ڈیوٹیز کم کی جائیں

تو ایک تو متوسط طبقے کا بھلا ہو، دوسرا کار ڈیلنگ کے کاروبار میں بھی اضافہ ہو ،خصوصاً اگر سیکنڈ ہینڈ امپورٹڈ گاڑیاں منگوانے میں حکومت نرمی اختیار کرے تو آٹو اندسٹری میں مقابلے کی فضا بنے گی جس سے گاڑیوں کی قیمتیں کم ہونگی اور عام آدمی کو یقیناً فائدہ ہو گا مگر یہاں بھی ہماری بدقسمتی آڑے آ جاتی ہے کہ ہم پر چند کمپنیاں مسلط کر دی گئی ہیں جو لوکل گاڑیوں کی پروڈکشن میں انتہائی ناقص مٹیریل استعمال کرتی ہیں۔ گاڑی کی ابھی رجسٹریشن بھی نہیں ہوتی کہ اسے زنگ لگنا شروع ہو جاتا ہے جبکہ گاڑی کا انٹیرئر رکشے سے بھی گیا گزرا ہوتا ہے، حالانکہ 1992 میں گورنمنٹ سکیم کے تحت جو گاڑیاں امپورٹ کی گئی تھیں ان کو ابھی بھی زنگ نہیں لگا۔حد تو یہ ہے کہ پاکستان میں 1974 ماڈل کی پرانی گاڑی چلنے پر پابندی نہیں مگر 2008 ماڈل کی گاڑی امپورٹ کرنے پر پابندی ہے جو اس سے کروڑ درجے بہتر ہوتی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ باہر سے گاڑیاں امپورٹ کرنے میں آسانی پیدا کرے، اس میں حکومت یہ کر سکتی ہے کہ اٹھارہ سو سی سی سے اوپر والی گاڑی پر بے شک پابندی لگا دے یا سختی کر دے لیکن چھوٹی گاڑیاں لانے کی اجازت دے ،بھلے وہ پرانی ہی کیوں نہ ہوں اور کسٹم ڈیوٹی میں چھوٹ دے۔ اگر پرانی سے پرانی جاپانی کار کا موازنہ نئی لوکل کار سے کریں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ہماری آٹو انڈسٹری کس قدر پیچھے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ امپورٹڈ گاڑی کو ہی ترجیح دیتے ہیں

کیونکہ وہ پائیدار ہونے کے ساتھ ساتھ حفاظتی فیچرز بھی رکھتی ہے۔ایک اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں ہر ہزار میں سے اٹھارہ افراد کے لیے ایک کار ہے۔ بھارت میں ہزار میں سے بائیس افراد گاڑی کے مالک ہیں۔ امریکہ میں ہزار میں سے 979اور برطانیہ میں ہزار میں سے 850افراد گاڑی کے مالک ہیں۔میں اس وقت امریکا میں موجود ہوں یہاں ہر چھوٹی سے چھوٹی گاڑی سیفٹی چیکنگ کے بغیر سڑک پر آہی نہیں سکتی، پھر ہر کمپنی کو مارکیٹ میں گاڑی دینے کے لیے سخت رولز اینڈ ریگولیشن فالو کرنا پڑتے ہیں ۔ یہاں اگر کسی نئی گاڑی کمپنی کا فالٹ ثابت ہو جائے تو دنیا بھر میں اُس کمپنی کی گاڑیاں جہاں جہاں سیل ہو چکی ہیں وہیں انہیں فالٹ ٹھیک کرنے کا پابند ٹھہرایا جاتا ہے، ورنہ کسٹمر لاءکے تحت گاڑی کمپنی کو واپس کر کے نئی حاصل کر سکتے ہیں۔ ایک اور بات کہ پاکستان میں موجود بڑی آٹو

موبائل کمپنیاں بہت سا ریونیو بھی اکٹھا کر کے ملک سے لے جاتی ہیں، ایک اندازے کے مطابق تینوں بڑی کمپنیوں کا سالانہ بل 11ارب ڈالر کے قریب ہے، اگر یہی 11ارب ڈالر ملک کے اندر رہیں اور یہی ساری مینوفیکچرنگ ہو تو ہم بہت سا ریونیو بھی بچا سکتے ہیں۔ اور ویسے بھی جب بھی کوئی غیر ملکی کمپنی پاکستان میں آٹو موبائل کے شعبے میں سرمایہ کاری کرتی ہے تو حکومت اُسے خصوصی مراعات اِس شرط کے ساتھ دیتی ہے کہ وہ کمپنی پانچ سال کے اندر اندر گاڑی کی تمام مینوفیکچرنگ پاکستان میں منتقل کردے گی تاہم پاکستان میں کام کرنے والی کمپنیوں نے تیس تیس سال سے زائد گزر جانے کے باوجود بھی سو فیصد مینوفیکچرنگ تو کیا ساٹھ فیصد مینوفیکچرنگ بھی پاکستان میں منتقل نہیں کی

بلکہ کچھ غیر معیاری پارٹس پاکستان میں تیار کرکے انجن اور ٹرانسمیشن سمیت اہم پارٹس سی ڈی کے اور ایس ڈی کے کے نام پر بیرون ملک سے ہی درآمد کرکے گاڑیاں اسمبل کی جارہی ہیں۔ جس کے لیے کئی ملین ڈالرز اُن پارٹس کی خریداری کی مد میں بیرون ملک بھیجے جا رہے ہیں لیکن پھر بھی یہ اسمبلرز حکومت سے مینوفیکچرنگ والے مفادات حاصل کر رہے ہیں۔ اسی طرح اسمبلرز مافیا نے ایک طرف تو باہر سے آنے والی گاڑیوں پر پابندیاں عائد کروائیں تو دوسری جانب صرف گزشتہ ایک سال میں گاڑیوں کی قیمتوں میں چالیس سے پچاس فیصد تک اضافہ کردیا یعنی چھ سو ساٹھ سی سی گاڑی سے لیکر دو ہزار سی سی گاڑی تک کی قیمت میں چھ لاکھ سے پندرہ لاکھ روپے کی قیمت بڑھا دی ہے لیکن پاکستان میں کوئی بھی ایسا ادارہ نہیں ہے جو ان بےجا بڑھتی ہوئی قیمتوں کو روک سکے۔خیر چند ماہ قبل اس

قسم کی سرگرمیوں کی روک تھام کے لیے کابینہ کے اجلاس میں وزیراعظم عمران خان نے ایک کمیٹی بنائی تھی جو اس معاملے کی نگرانی کرے گی کہ مقامی سطح پر بننے والی گاڑیوں کے معیارات کیا ہیں؟ اور انہیں کیسے بہتر بنایا جا سکتا ہے مگر ابھی تک وہ کمیٹی ہی منظر عام سے غائب ہے۔ حالانکہ اس کمیٹی نے احکامات جاری کیے کہ وہ نئی گاڑیوں کی خریداری کے عمل کو ریگولیٹ کریں گے جس میں ایسے کار ڈیلروں اور کار بنانے والوں پر جرمانے عائد کیے جائیں گے جو غلط سرگرمیوں میں ملوث پائے جاتے ہیں۔ لیکن ابھی تک کار خریدنے والے اس قسم کے اقدامات کے ثمرات سے محروم ہیں لہذا حکومت کو چاہیے کہ آٹو پالیسی میں ترمیم کرے ۔ گاڑیوں کی ہوش ربا قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے لئے حکومت یا تو نئی کمپنیوں کو ملک کے اندر لائے اور مقامی پروڈکشن بڑھائے یا امپورٹڈ گاڑیوں پر کسٹم ڈیوٹی کم کرے ۔ مگر سوال یہ ہے کہ حکومت کچھ تو کرے جو عوام کو نظر آئے!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں