25

سال2021سردیوں میں بارشیں 86فیصد کم،برفباری بھی51فیصد کم،اوسط درجہ حرارت میں 3درجے کا اضافہ
دنیا بھر میں بڑے غذائی بحران نے بھی سراٹھانا شروع کردیا،پاکستان میں بھی خطہ پوٹھوہار میں گندم پر انتہائی منفی اثرات کا خدشہ
وزارت برائے موسمیاتی تبدیلی اور وزارت برائے نیشنل فوڈ سیکورٹی کے حکام کی غفلت ڈیٹا تک نہ مرتب کیا نہ ہی پالیسی تشکیل دی

اسلام آباد (محمد جواد بھوجیہ) دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلیوں نے اپنے اثرات دکھانے شروع کردیے ہیں،وہیں پاکستا ن میں یہ صورت حال انتہائی خطرناک ہوچکی ہے۔تفصیلات کے مطابق سال2021 سرمامیں موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات شدت کیساتھ سامنے آئے ہیں،موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے موجودہ سال موسم سرماکی بارشوں میں 86فیصد کمی ہوئی ہے،پہاڑوں پر برفباری بھی51فیصد کم ہوئی ہے وہیں خطرناک عمل یہ ہوا ہے کہ اوسط درجہ حرارت میں 3درجے سینٹی گریڈ اضافہ ہوا ہے ماضی میں ماہ فروری میں اوسط درجہ حرارت13درجے سینٹی گریڈ ہوتا تھا تاہم اس سال یہ درجہ حرارت 16درجے سینٹی گریڈ اوسط ریکارڈ کیاگیا ہے۔اس پورے عمل کی وجہ سے جہاں دنیا بھر میں پہلے ہی غذائی بحران خوفناک شکل اختیار کرچکا ہے اور خوراک کی پیداوار میں 691ملین ٹن کمی ہوئی ہے جس کی وجہ سے غذائی کمی کے شکار افراد میں 31فیصد تک اضافہ کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے۔تاہم اگر اس ساری صورت حال کو پاکستان کے تناظر میں دیکھا جائے تو صورت حال مزید گھمبیر ہوتی نظر آتی ہے کیونکہ اس حوالہ سے کام کرنے والی دونوں وزارتیں نیشنل فوڈ سیکورٹی اور موسمیاتی تبدیلی کے حکام خواب غفلت سے بیدار ہی نہیں ہوئے ہیں۔یہاں یہ امر انتہائی خطرناک ہے کہ دونوں وزارتوں نے اس حوالہ سے نہ کوئی ڈیٹا مرتب کیا ہے اور نہ ہی حکومت کو اصل صورت حال سے آگاہ کیا ہے،دونوں وزارتیں اس سنگین صورت حال میں بھی انتہائی مجرمانہ غفلت کی مرتکب ہوئی ہیں وہیں دونوں وزارتوں میں کسی بھی قسم کے تعاون اطلاعات کی شیئرنگ کو کوئی طریقہ کا ر موجودہ ہی نہیں،دنیا بھر میں زراعت اور موسمیاتی تبدیلیوں کی وزارتوں اور محکموں کو یا تو یکجا کردیا گیا ہے یا ان میں بھرپور روابط قائم ہیں تاہم پاکستان میں وزارت کے بابو اتنا بھی گوارا نہیں کرتے کہ اس اہم ترین معاملہ پر دیگر وزارتوں اور اداروں سے مشاورت ہی طلب کرلیں۔زرعی ماہرین کے مطابق بارشوں میں اتنی بڑی کمی سے خطہ پوٹھوہار جو ملکی گندم کا21فیصد پیدا کرتا ہے میں فصل کو شدید نقصان کا اندیشہ ہے جس سے ملکی اوسط پیداوار بھی بری طرح متاثر ہونگی۔پاکستان زرعی تحقیقاتی کونسل کے سائنسدانوں کو چند سال قبل اس خطرناک صورت کے متعلق آگاہ بھی کیا گیا تھا کہ ایسی ورائیٹز پر توجہ دیں جو سخت موسم کو برداشت کرسکیں اور موسمیاتی تبدیلیوں میں بھی موزوں ہوں تاہم ان سائنسدانوں نے بڑی فنڈنگ تو حاصل کرلی تاہم اس پر کام صفر ہے۔وہیں دوسری وزارت برائے موسمیاتی تبدیلی کی صورت حال بھی ایسی ہی ہے جہاں گزشتہ تین سالوں سے موسم کی شدت،موسمیاتی تبدیلیوں کا کوئی مستند ڈیٹا مرتب نہیں کیا گیا۔این جی اوز اور صوبوں کے ڈیٹا پر انحصار کیا جارہا ہے اور جعلی ڈیٹے مرتب کیے جارہے ہیں،دنیا بھر کی موسمیاتی تبدیلی پر کام کرنے والی تنظیموں اور اداروں نے پاکستان کو اس حوالہ سے کئی بار واضح طور پر بتایا تھا کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالہ سے ایک انتہائی حساس ملک ہے تاہم وزارت برائے موسمیاتی تبدیلی اس حوالہ سے نہ صرف غافل نظر آتی ہے بلکہ حکومت کو درست ڈیٹا تک فراہم کرنے میں مکمل ناکام نظر آتی ہے۔۔۔۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں