211

آزادی مارچ: اپوزیشن کی اے پی سی میں شہباز شریف اور بلاول بھٹو کی عدم شرکت

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کی زیر صدارت آزادی مارچ کی حکمت عملی طے کرنے کے لیے اپوزیشن جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی ) جاری ہے۔

مولانا فضل الرحمن کی رہائش گاہ پر جاری اے پی سی میں 9 اپوزیشن جماعتیں شریک ہیں تاہم 5 سیاسی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ(ن)، پاکستان پیپلزپارٹی، عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی )، نیشنل پارٹی اور جمعیت اہلحدیث کی قیادت شریک نہیں ہے۔

آل پارٹیز کانفرنس میں شریک رہنماؤں میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سیکریٹری جنرل مولانا عبدالغفور حیدری، نیشنل پارٹی کے سینیٹر میر کبیر احمد شاہی، رہبر کمیٹی کے رکن شفیق پسروری، عوامی نیشنل پارٹی کے جنرل سیکریٹری میاں افتخار حسین شامل ہیں۔

اے پی سی میں راجا پرویز اشرف، نیئر بخاری اور فرحت اللہ بابر پر مشتمل پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کا وفد بھی شریک ہے تاہم چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو زرداری شریک نہیں ہیں ۔

مولانا فضل الرحمٰن کی رہائش گاہ پر جاری اے پی سی میں پاکستان مسلم لیگ(ن) کے صدر شہباز شریف نے شرکت نہیں کی تاہم پارٹی رہنما ایاز صادق اور ڈاکٹر عباداللہ شریک ہیں۔

اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس کے دوران آزادی مارچ پر مشاورت،مطالبات کی منظوری اور اپوزیشن جماعتوں کے موقف پر فیصلہ کن لائحہ عمل پر غور ہوگا۔

آل پارٹیز کانفرنس میں مسلم لیگ( ن) اپنے پارٹی اجلاس میں طے ہونے والوں فیصلوں سے مولانا فضل الرحمٰن کو آگاہ بھی کرے گی۔

ن لیگ کا آزادی مارچ کی بھرپور سیاسی حمایت جاری رکھنے کا فیصلہ

قبل ازیں پاکستان مسلم لیگ(ن) نے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کی زیر قیادت آزادی مارچ سے متعلق اپنی جماعت کی آئندہ حکمت عملی پر مشاورت کے لیے سینئر قیادت کا اجلاس طلب کیا تھا۔

پاکستان مسلم لیگ(ن) کے صدر شہباز شریف کی زیر صدارت لیگی رہنماوں کے اجلاس میں مولانا فضل الرحمٰن کے مطالبات کی بھرپور حمایت کا فیصلہ کیا گیا۔

پاکستان مسلم لیگ(ن) کے رہنما احسن اقبال نے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ن لیگ اپنے قائد نواز شریف کی ہدایات کی روشنی میں آزادی مارچ کی بھرپور سیاسی حمایت جاری رہے گی۔

انہوں نے کہا کہ آج کے اجلاس میں مکمل اتفاق رائے پایا گیا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) نواز شریف کے متعین کردہ رہنما اصولوں کے مطابق اپنا کردار ادا کرتی رہے گی۔

احسن اقبال نے کہا ہماری جماعت اپوزیشن کی دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر رہبر کمیٹی کے ذریعے اور اے پی سی کے فیصلوں کی روشنی میں مشترکہ اپوزیشن حکمت عملی کے ذریعے میں نئے انتخابات کی راہ ہموار کرنے کے لیے اور عمران خان سے استعفیٰ لینے کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کرے گی۔

انہوں نے کہا کہ ہماری پارٹی کی قیادت نے متفقہ طور پر محسوس کیا کہ پاکستان کا اقتصادی اور معاشی بحران ملک کی قومی سلامتی کے لیے خطرہ بن چکا ہے۔

احسن اقبال نے کہا کہ 14 ماہ میں ملک کو جس انداز میں اس اناڑی حکومت نے چلایا ہے ہماری معیشت کے تسلسل کو خراب کردیا ہے، دنیا میں کوئی مثال نہیں ہے ایک سال میں ملک ساڑھے 3 فیصد معاشی گراوٹ کا نشانہ بنی ہو۔

مسلم لیگ(ن) کے رہنما کا کہنا تھا کہ عام آدمی کی زندگی اجیرن بن چکی ہے، روزگار کے دروازے بند چکے ہیں روزانہ کارخانے بند ہورہے ہیں، ریڑھی والے سے ارب پتی تک معیشت کو چلانا مشکل ہو گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ دوسری طرف پارلیمنٹ کو تالے لگ چکے ہیں اور ایوان صدر آرڈیننس فیکٹری بن گیا ہے، تمام چور دروازوں سے قانون سازی کی جارہی ہے جس سے پارلیمنٹ بے توقیر ہو گیا ہے۔

احسن اقبال نے کہا کہ احتساب عدالت ججوں کی تقرریاں کی جارہی ہیں واٹس ایپ سے ججوں کو لگایا اورہٹایا جاتا ہے اس نے لوگوں کی نظر میں نظام عدل پر سوالات اٹھا دیے ہیں۔

مسلم لیگ(ن) کے رہنما نے کہا کہ میڈیا کی زبان بندی کی گئی ہے، آزادی رائے کے آئینی حق کو سلب کیا جاچکا ہے اور قائد اعظم کے جمہوری پاکستان کو عمران خان کے فاشسٹ پاکستان میں تبدیل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

احسن اقبال نے کہا کہ سفارت کاری تنہائی میں جارہی ہے کشمیر پر سفارتی کارکردگی باعث شرمندگی ہے کہ حکومت 16ووٹ حاصل نہ کر سکی، اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی طاقت او آئی سی کا اجلاس تک نہیں بلا سکی۔

انہوں نے کہا کہ آج ملک کے تمام اسٹیک ہولڈرز کو ریاست کو فنکشنل کرنے کےلیے جائزہ لینا چاہیے پاکستان کو ری سیٹ کی ضرورت ہے، کوئی شخص اپنی گاڑی پر ایسے ڈرائیور کو نہیں بٹھاتا جو روز ایکسیڈنٹ کرے۔

احسن اقبال نے کہا کہ آزادی مارچ کے لیے ہم عمران خان کو قصوروار سمجھتے ہیں،پاکستانی سیاست میں عمران خان نے جتھوں کے ساتھ استعفوں کے مطالبوں کی بنیاد ڈالی لیکن اب تک آزادی مارچ کے پلیٹ فارم سے کسی نے عام آدمی کی دسترس سے باہر ہونے کے باجود بجلی کے بلوں کو آگ نہیں لگائی اور قوم کو یہ دعوت نہیں دی کہ تم بجلی کے بل ادا نہ کرو۔

انہوں نے کہا کہ کسی نے آزادی مارچ سے یہ نہیں کہا کہ آپ نے زر مبادلہ نہیں بھیجنا، کسی نے یہ نہیں کہا کہ میں ان لوگوں کو پھانسی کے پھندے پر لے جاؤں گا، کسی نے ملک کے سرکاری ملازمین کو یہ نہیں کہا کہ وہ بغاوت کردیں۔

مسلم لیگ(ن) نے کہا کہ جنہوں نے کل تک ملک میں انتشار پھیلانے کی باتیں کیں تھیں انہیں اس زبان میں جواب نہیں ممل رہا چونکہ اپوزیشن جماعتیں ذمہ دار ہیں ہم جمہوری قوتیں ہیں، ہم تاریخ کو، عوام کو اور اپنے ضمیر کو جواب دہ ہیں۔

احسن اقبال نے کہا کہ آج کے اجلاس کی تجاویز کو رہبر کمیٹی کے اجلاس میں پیش کریں گے تاکہ مشرکہ فیصلہ کیا جا سکے، ہمارا فیصلہ ہے کہ حکومت کیخلاف جدوجہد میں مشترکہ حکمت عملی بنائی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ اے پی سی میں شہباز شریف نے شرکت کرنی تھی لیکن ہماری جماعت کے مشاورتی اجلاس کی وجہ سے نہیں شریک ہو سکے، آج کی اے پی سی میں سردار ایاز صادق اور دوسرے رکن شریک ہوں گے۔

احسن اقبال نے کہا کہ ریبر کمیٹی میں تجاویز کو رہبر کمیٹی میں کوشش کرسکیں کہ اس حکومت کو رخصت کر کے آزادانہ انتخابات کے لیے راہ ہموار کرنے اپنی جمہوری جدوجہد کو فیصلہ کن انداز میں آگے بڑھاسکیں۔

اجلاس سے قبل میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے (ن) لیگ کے رہنما خرم دستگیر نے کہا کہ پہلے نواز شریف کے خط کی روشنی میں آزادی مارچ کا استقبال کیا اور جلسے میں شرکت کی۔

انہوں نے کہا تھا کہ اب آج کے اجلاس میں دھرنے کی آئندہ کی حکمت عملی سے متعلق فیصلہ کریں گے اور اب ہم نے دیکھنا ہے کہ آزاد، شفاف انتخابات تک کیسے جانا ہے۔

پاکستان مسلم لیگ(ن) کے رہنما محمد زبیر نے کہا تھا کہ مسلم لیگ (ن) پہلے ہی کہہ چکی ہے آزادی مارچ میں جائیں گے دھرنے میں نہیں۔

محمد زبیر نے کہا تھا کہ ہم دعا گو ہیں کہ حکومت اور مولانا فضل الرحمٰن کے درمیان معاملات احسن طریقے سے طے پا جائیں، تشدد اور غہر یقینی کی صورتحال نہیں پیدا ہونی چاہیے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں