11

آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع ہوگی یا نہیں؟چیف جسٹس نے دھماکے دار بیان جاری کردیا

سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا ہے کہ آرمی چیف کی ایکسٹینشن کا تفصیلی فیصلہ میری ریٹائرمنٹ سے پہلے آجائے گا، تبدیلی وہی لاتے ہیں جو رسک لینے کیلئے تیار ہوتے ہیں، معزز پیشے سے وابستہ افراد کو خود احتسابی کےعمل سے گزرنا ہو گا۔ اسلام آباد میں سستے فوری انصاف سے متعلق قومی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے

چیف جسٹس سپریم کورٹ نے کہا کہ لاہور واقعہ افسوسناک اور قابل مذمت ہے۔ واقعہ ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے اس لئے زیادہ بات نہیں کرناچاہتا۔ اس واقع کو نہیں ہونا چاہیئے تھا۔ ڈاکٹرز اور وکیل دونوں معاشرے کے باوقار پیشے ہیں، دونوں پیشوں کیساتھ گراں قدرروایات منسلک ہیں۔ معزز پیشے سے تعلق رکھنے والوں کو خود احتسابی کے عمل سے گزرنا ہوگا، امید ہے اس طرح کے واقعات مستقبل میں پیش نہیں آئیں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم متاثرہ خاندان کیساتھ ہمدردی کا اظہارکرتے ہیں۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ نے صحافیوں سے غیررسمی گفتگو بھی کی۔ ایک سوال آرمی چیف کی مدت ملازمت سے متعلق فیصلہ کب تک آئے گا؟ کے جواب میں چیف جسٹس سپریم کورٹ آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ میری ریٹائرمنٹ سے قبل تفصیلی فیصلہ آجائے گا۔ خبررساں ادارے کے مطابق انہوں نے تقریب سے خطاب میں کہا کہ ہم نے نظام میں رہتے ہوئے انصاف میں تاخیر کا عمل مختصر کیا۔ ماڈل کورٹس کے زریعے تیز ترانصاف کو یقینی بنایا گیا، ایسا نظام بنایا ہے کہ 17 دنوں میں چالان آجائے۔ گواہوں کو پیش کرنے کی ذمہ داری ریاست کی ہوتی ہے، ہم نے کہا کہ مدعی کے بجائے پولیس اور ریاست گواہ پیش کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ ماڈل کورٹس نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور کیسوں کو ماڈل کورٹس منتقل کرنے کی درخواستیں موصول ہو رہی ہیں۔ ماڈل کورٹس کو کامیاب بنانے میں وکلائ اور ججز نے اہم کردار ادا کیا۔ 25 اضلاع میں ماڈل کورٹس کی بدولت مقدمات کی شرح میں واضح کمی آئی ہے جبکہ ماڈل کورٹس کی سماعت کے طریقہ کار پر آج تک کوئی شکایت نہیں ملی۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ماڈل کورٹس کے ججز کا طریقہ سماعت ہائی کورٹ کی سطح کا ہے۔ ماڈل کورٹس نے مردہ سسٹم میں جان ڈال دی ہے اور ہائی کورٹس کے جج صاحبان کے تعاون کے بغیر یہ ممکن نہیں تھا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں