سپریم کورٹ سے توہینِ مذہب کے مقدمے میں بری ہونے والی مسیحی خاتون آسیہ بی بی بیرون ملک منتقل ہو گئیں۔دفتر خارجہ کے ذرائع نے ڈان نیوز ٹی وی کو بتایا کہ ’آسیہ بی بی ملک سے جاچکی ہیں، وہ آزاد ہیں اور اپنی مرضی سے وہ اس سفر پر گئیں‘۔
تاہم ذرائع نے اس حوالے سے کچھ نہیں بتایا کہ آسیہ بی بی کس ملک گئی ہیں۔امریکی نشریاتی ادارے سی این این کی رپورٹ کے مطابق آسیہ بی بی کا مقدمہ لڑنے والے وکیل سیف الملوک نے تصدیق کی کہ وہ کینیڈا پہنچ گئی ہیں۔
یاد رہے کہ آسیہ بی بی کو 9 سال قید میں رہنے کے بعد سپریم کورٹ نے 31 اکتوبر کو توہینِ مذہب کے مقدمے میں بری کیا تھا، جس پر مذہبی جماعتوں کی جانب سے احتجاج بھی دیکھنے میں آیا تھا۔مذکورہ فیصلے کے بعد آسیہ بی بی کو 7نومبر2018 کو ملتان کی خواتین جیل سے رہائی کے بعد خصوصی طیارے کے ذریعے سخت سیکیورٹی میں اسلام آباد میں کسی نامعلوم مقام پر پہنچا دیا گیا تھا۔
اس کے بعد سے اب تک حکام سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے ان کی موجودگی پر کچھ بھی بتانے سے گریزاں رہے، البتہ چند روز قبل برطانوی اخبار خبر رساں ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر محمد فیصل نے اس بات کی تصدیق کی تھی کہ آسیہ بی بی پاکستان میں ہیں۔
قبل ازیں آسیہ بی بی کے بھائی جیمز مسیح نے کہا تھا کہ ‘آسیہ پاکستان میں محفوظ نہیں ہیں، ان کے پاس کوئی اور چارہ نہیں کہ وہ جلد ہی ملک چھوڑ دیں‘۔بعد ازاں آسیہ بی بی کی بریت کے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف توہین مذہب کیس کے مدعی قاری عبدالسلام نے نظرثانی درخواست دائر کی تھی جسے سپریم کورٹ نے مسترد کردیا تھا۔
آسیہ بی بی کیس
پنجاب کے ضلع شیخوپورہ میں 19 جون 2009 کو ایک واقعہ پیش آیا، جس میں آسیہ بی بی نے کھیتوں میں کام کے دوران ایک گلاس میں پانی پیا جس پر ایک خاتون نے اعتراض کیا کہ غیر مسلم ہونے کی وجہ سے آسیہ پانی کے برتن کو ہاتھ نہیں لگا سکتیں، جس پر دونوں میں مبینہ طور جھگڑا ہوا۔
جھگڑے کے دوران اس خاتون کی جانب سے آسیہ بی بی پر توہین مذہب کا الزام لگایا گیا، جس کے کچھ دنوں بعد خاتون نے ایک مقامی عالم سے رابطہ کرتے ہوئے ان کے سامنے آسیہ کے خلاف توہین مذہب کے الزامات پیش کیے۔
جس کے بعد آسیہ بی بی کو نومبر 2010 میں توہین مذہب کے الزام میں سزائے موت سنائی گئی تھی جبکہ ان کے وکلاء اپنی موکلہ کی بے گناہی پر اصرار کر رہے تھے جبکہ ان کا موقف تھا کہ الزام لگانے والے آسیہ سے بغض رکھتے تھے۔
خیال رہے کہ پاکستان میں توہین مذہب کے جرم کی سزا موت ہے، تاہم انسانی حقوق کی تنظیمیں دعویٰ کرتی ہیں کہ اس قانون کو اکثر ذاتی انتقام لینے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔بعد ازاں آسیہ بی بی نے ٹرائل کورٹ کے فیصلے کو لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کردیا تھا، تاہم عدالت نے 2014 میں ان کی سزائے موت کا فیصلہ برقرار رکھا تھا۔
جس کے بعد بھی آسیہ بی بی کی سزائے موت کے خلاف مختلف عدالتوں میں متعدد اپیلیں کی گئیں، جو مسترد ہوگئیں جبکہ اکتوبر 2016 میں سپریم کورٹ نے بھی ان کی سزا برقرار رکھی تھی۔جس کے بعد 5 اکتوبر 2018 کو آسیہ بی بی کی سزائے موت کے خلاف نظرِ ثانی اپیل دوبارہ سماعت کے لیے مقرر ہوئی اور 31 اکتوبر 2018 کو سپریم کورٹ نے فیصلہ سناتے ہوئے انہیں توہینِ مذہب کیس سے بری کردیا تھا۔
اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے فیصلے میں کہا تھا کہ ’ مدعی کی جانب سے مبینہ توہین مذہب کے الزام میں پیش کردہ ثبوتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بات سامنے آئی کہ استغاثہ شک و شبہ سے بالاتر ثبوت پیش کرنے میں یکسر ناکام رہا‘۔