15

بریکنگ نیوز: میاں نوازشریف کی رہائشگاہ سے چالیس ملازمین کی چھٹی کروا دی گئی، مگر کیوں؟ جانیے

عثمان علیم(ویب ڈیسک) تنخواہیں دینے کے لیے پیسے نہیں، فیکٹریوں اور مارکیٹوں کے بعد بیروزگاری کا جن جاتی امراء بھی پہنچ گیا، سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کی رہائشگاہ سے چالیس ملازمین کونکال دیا گیا۔بیروزگاری نے اب جاتی عمرہ کی راہ بھی دیکھ لی ہے، سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کی رہائشگاہ سے ان کے ملازمین کو نوکریوں

سے نکالنے کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق تنخواہوں کے لئے پیسے پورے نہ ہونے کے باعث جاتی عمرہ کے ملازمین کو تنخواہیں نہ صرف تاخیر سےدی جارہی ہیں بلکہ چالیس سے زائد ملازمین کو فارغ کر دیا گیا ہے۔ذرائع کے مطابق جاتی عمرہ کے ملازمین کو دسمبرکی تنخواہیں پندرہ روزہ تاخیر کے بعد کل ادا کی گئی ہیں، ذرائع کا کہنا ہے کہ شریف خاندان کی طرف سےجاتی عمرہ کے ملازمین کو تنخواہوں کے لیے پیسے دستیاب نہ ہونے کو جواز بنا کر نوکریوں سےنکالا گیا ہے۔ جاتی

عمرہ پرکام کرنے والے ملازمین سمیت دیگرانتظامی امورسابق وزیراعظم میاں نوازشریف کےداماد کیپٹن (ر) صفدر دیکھ رہے ہیں۔ جاتی عمرہ میں نوکریوں سے نکالے جانے والے ملازمین میں سیکورٹی گارڈز، ویٹراور مالی شامل ہیں۔جبکہ دوسری جانب ایک خبر کے مطابق وزیر اعظم کے ترجمان ندیم افضل چن نے کہا ہے کہ اگر کسی کو وزیر اعظم بنادیا جائے تو وہ حبیب جالب بھول جاتاہے، تنقید کرنے والی ق لیگ کومشرف دور کی موجیں یاد آرہی ہیں ، مشرف اور موجودہ کابینہ میں یہ فرق ہے کہ اس وقت ایک سلیکٹڈ وزیر اعظم تھا اور آج ایک سلیکٹڈ وزیر اعظم نہیں ہے ۔جیونیوز کے پروگرام ”کیپٹل ٹاک“میں گفتگو کرتے ہوئے ندیم افضل چن نے کہا کہ سیاست کرنا سب کاحق ہے ، آپ اپنے نظریہ پر چلیں اور میں اپنے نظریے پر چلوں ، یہ صرف

حکومت کی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ اپوزیشن کی بھی ذمہ داری ہے ، اپوزیشن مسائل کے حل کی طرف آئے ، نیب قوانین پر سپریم کورٹ کہہ رہی ہے ، الیکشن کمیشن کے بھی نام ہیں اور اپوزیشن اس پر بھی تنقید کررہی ہے ، پھر کہتے ہیں کہ ادارے مداخلت کرتے ہیں۔ندیم افضل چن کا کہنا تھاکہ پھر خواجہ آصف کارکنوں پر تنقید کرتے ہیں کہ نکلا کوئی نہیں ہے ، ہم لاہور بھی گئے اور فلاں جگہ گئے اور نکلا کوئی نہیں ۔ انہوں نے کہا کہ اگر کسی کو وزیر اعظم بنادیا جائے تو وہ حبیب جالب بھول جاتاہے، تنقید کرنے والوں کو مشرف دور کی موجیں یاد آرہی ہیں ، مشرف اور موجودہ

کابینہ میں یہ فرق ہے کہ اس وقت ایک سلیکٹڈ وزیر اعظم تھا اور آج ایک سلیکٹڈ وزیر اعظم نہیں ہے ۔ اس وقت حامد میر کوڈنڈے پڑے تھے اور آج کاشف عباسی پر پابندی لگی ہے تو ہم اس کی مذمت کررہے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں