162

تمباکو قوانین کی دھجیاں بکھیرنا حکومت کے منہ پر تماچہ ہے ثناء اللہ گھمن


ہم اپنی نوجوان نسل کوتمباکو کی ہلاکت خیزیوں سے بچانے کے لیے کسی بھی حد تک جاہیں گے، ملک عمران احمد

ہم پاکستان کے مستقبل کو بچانے کے لیے کسی بھی طاقت سے ٹکرانے کے لیے تیار ہیں۔تمباکو انڈسٹری نوجوانوں کو اپنی طرف راغب کرنے کے لیے طرح طرح کے ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے۔ ہمیں اس موزی مرض سے اپنے لوگوں کو بچانا ہو گا اور اس کے لیے ہر سازش کو بے نقاب کرنا ہو گا۔ یہ بات اسلام آباد کے ایک مقامی ہوٹل میں پناہ کے زیر اہتمام ایک تقریب میں کہی گئی۔ تقریب کے میزبان پناہ کے سیکریٹری جنرل ثناہ اللہ گھمن تھے۔تقریب کی مہمان خصوصی ممبر قومی اسمبلی ڈاکٹر ثمینہ مطلوب تھیں۔ مہمانوں میں تمباکو فری کڈز کے کنٹری ہیڈ ملک عمران احمد، کرومیٹک ٹرسٹ کے شارق خان، سابقہ ہیڈ تمباکو کنڑول سیل ڈاکٹر ضیاء الدین اسلام اور الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا سے سینئر صحافی شامل تھے۔
مہمانوں سے گفتگو کرتے ہوے پناہ کے سیکریٹر ی جنرل ثناہ اللہ گھمن نے بتایا کہ پناہ پچھلے 40سالوں سے لوگوں میں تمباکو نوشی کے نقصانات سے آگاہی کی مہم چلا رہی ہے اور ایسے قوانین بنونے کے لیے کوشاں ہے کہ ملک میں تمباکو نوشی کم ہو سکے اور نوجوان جو تیزی سے اس لت میں مبتلاء ہو رہے ہیں

ان کی تعداد میں کمی لائی جا سکے اور اپنے۔ لوگوں کو مرنے سے بچایا جا سکے اور اپنی ینگ جنریشن کو نشے کی طرف جانے سے بچا سکیں اگر حکومت نے سگریٹ نوشی کے تدارک کے لیے اقدامات نہ کیے تو اس سے ناقابل تلافی نقصان ہو گا،تمباکو اپنے 50فیصد استعمال کرنے والوں کو مار دیتا ہے۔ پاکستان میں روزانہ 500کے قریب لوگ تمباکو کی وجہ سے پیدا ہونے والی بیماریوں سے مر جاتے ہیں۔ 5000کے قریب روزانہ ہسپتال میں جاتے ہیں۔ PIDEکے مطابق 615ارب روپے سے زیادہ رقم تمباکو سے پیدا ہونے والی بیماریوں پر ہمارا خرچہ آ رہا ہے جبکہ انڈسٹری لوگوں کو مارنے کی قیمت 112ارب روپے دے رہی ہے۔ ہم اپنی نوجوان نسل کو تباہی سے بچانے کے لیے کسی بھی حد تک جائیں گئے
مہمان خصوصی ڈاکٹر ثمینہ مطلوب نے کہا کہ کسی بھی حکومت کی بنیادہ زمہ داری اپنی عوام کی صحت ہوتی ہے۔ ہماری حکومت اس زمہ داری کو بخوبی جانتی ہے۔ ہم اپنی عوام اور نوج ملک عمران نے کہا کہ تمباکو انڈسٹریpolicy makersکو غلط معلومات کے زریعے misguideکر کے اپنے مطلب کے لیے استعمال کرتی ہے۔پاکستان میں تمباکو کی تشہیر پر پابندی ہے لیکن تمباکو انڈسٹری مختلف حیلوں بہانوں سے اپنی مصنوعات کی تشہیر کر رہی ہوتی ہے۔ کبھی بہتر پاکستان کے زریعے، کبھی درخت سپانسر کے نت نئے طریقوں سے اپنی تشہیر کر کے کبھی نوکریوں کا جانسہ دے کر کبھی ہمارے ہیروز کو استعمال کر کے معصوم بچوں کو تمباکو کی طرف مائل کرتی ہے جس سے پاکستان میں روزانہ 1200تمباکو نوشی شروع کر رہے ہیں۔ اس سے نہ صرف پاکستان کا مستقبل تبائی کی طرف جا رہا ہے بلکہ تمباکو کی وجہ سے پیدا ہونے والی بیماریوں پر حکومت کا اربوں روپے کا بجٹ بھی ضائع ہو رہا ہے اور لوگوں کی صحت کی کوئی قیمت ہی ادا نہیں کی جا سکتی۔
ڈاکٹر ضیاء الدین نے کہا کہ تمباکو انڈسٹری نت نئے حربوں سے اپنی تشہیر کر رہی ہے اور اپنی مصنوعات کو پرکشش بنا کر ان کی مارکیٹنگ کر رہی ہے۔ بچوں کے تعلیمی ادارے ان کا خصوصی ہدف ہیں۔ شارق خان نے کہا کہ ہمیں سوشل میڈیا سمیت ہر پلیٹ فارم کو موثر انداز میں استعمال کر تے ہوے نوجوانوں کو آگائی دینا ہو گی کہ وہ تمباکو کی ہلاکت خیزیوں سے بچ سکیں۔
حسنہ خٹک۔ میڈیا کوارڈینیٹر۔ پناہ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں