اسلام آباد: اٹارنی جنرل انور منصور نے سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) کے سامنے واضح کردیا کہ حکومت نے کیوں اعلیٰ عدالت کے 2 ججز کے خلاف ریفرنس دائر کیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق صدارتی ریفرنس میں لگائے گئے الزامات کے خلاف سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے اٹھائے گئے موقف پر اعتراض کے لیے اٹارنی جنرل نے حکومت کی طرف سے جواب بھی دیا۔
اٹارنی جنرل کی جانب سے سپریم جوڈیشل کونسل کے اس تیسرے اجلاس میں تقریباً 90 منٹس تک دلائل دیے گئے۔
اس سے قبل 5 جولائی کو سپریم جوڈیشل کونسل نے اٹارنی جنرل انور منصور کو کہا تھا کہ وہ صدارتی ریفرنسز میں حکومت کی جانب سے لگائے گئے الزامات کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس کے کے آغا کی طرف سے دائر تحریری جواب کا جواب لے کر آئیں۔
واضح رہے کہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ، جسٹس گلزار احمد، جسٹس شیخ عظمت سعید، سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس احمد علی محمد شیخ اور پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ پر مشتمل سپریم جوڈیشل کونسل کے 5 اراکین سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس کریم خان آغا کے خلاف برطانیہ میں مبینہ طور پر جائیدادیں رکھنے سے متعلق ریفرنسز کی سماعت کرنے والوں میں شامل ہیں۔
سپریم جوڈیشل کونسل کے سیشن سے قبل مختلف بار کونسلز اور بار ایسوسی ایشنز کے نمائندگان نے سپریم کورٹ کے احاطے میں احتجاج کیا، اس دوران انہوں نے حکومت مخالف اور آزاد عدلیہ کی حمایت میں نعرے بازی بھی کی۔
ایس جے سی اجلاس کی بات کی جائے تو 2 جولائی کو آخری سماعت میں سپریم جوڈیشل کونسل نے مختصر سیشن رکھا تھا، جس میں اٹارنی جنرل کو طلب نہیں کیا گیا تھا، یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس اجلاس میں کونسل نے دونوں ججز کی طرف سے حکومتی الزامات کو مسترد کرنے سے متعلق جمع کرائے گئے تحریری جواب کا جائزہ لیا تھا۔
14 جون کو ہونے والے سپریم جوڈیشل کونسل کے پہلے اجلاس میں ج ریفرنسز کا مواد فراہم کیا گیا تھا جبکہ دونوں ججز کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ اپنے اوپر لگے الزامات پر وضاحت کریں۔
تاہم کسی بھی جج کو سپریم جوڈیشل کونسل کے انکوائری کے طریقہ کار 2005 کے تحت باضابطہ اظہار وجوہ کا نوٹس جاری نہیں کیا گیا تھا۔