9

رانا ثناء اللہ کے بعد لاہور ہائیکورٹ سے پرویز مشرف بارے بڑی خبر آگئی،بڑا ریلیف مل گیا

لاہورہائیکورٹ نے سابق صدر پرویز مشرف کی درخواست پر فل بنچ تشکیل دے دیا، فل بنچ 9 جنوری سے درخواست پر سماعت شروع کرے گا، پرویز مشرف نے خصوصی عدالت کا قیام کالعدم قراردینے کی

درخواست دی تھی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے سابق صدر جنرل رپرویز مشرف کیخلاف سنگین غداری کیس میں خصوصی عدالت کے قیام پرفل بنچ تشکیل دے دیا ہے۔ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی فل بنچ کی سربراہی کریں گے۔ جبکہ بنچ میں جسٹس

امیر بھٹی اور جسٹس چوہدری مسعود جہانگیر بھی شامل ہوں گے۔ فل بنچ 9 جنوری سے سنگین غداری کیس کیلئے خصوصی عدالت کے قیام سے متعلق سماعت شروع کرے گا۔ سابق صدر جنرل ر پرویز مشرف نے اپنے خلاف سنگین غداری کیس میں خصوصی عدالت کے قیام میں قانونی

معاملات پر سوالات اٹھائے تھے اور خصوصی عدالت کے قیام کو کالعدم قراردینے کیلئے درخواست دائر کی تھی۔ جس پر چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے سماعت کیلئے فل بنچ تشکیل دے دیا ہے۔ واضح رہے سابق صدر جنرل ر پرویز مشرف کیخلاف سنگین غداری کیس میں خصوصی عدالت کے 169صفحات کے جاری تفصیلی فیصلے میں دو ججز کا فیصلہ 68 صفحات جبکہ جسٹس نذر اکبر کا اختلافی فیصلہ 44 صفحات پر مشتمل ہے۔ فیصلے

میں جسٹس شاہد کریم کا 57 صفحات کا نوٹ بھی شامل ہے جس میں پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ سمیت دیگر ممالک کے مختلف عدالتی فیصلوں کی نظیر پیش کی گئی ہیں۔ اکثریتی فیصلے کے مطابق پرویز مشرف ایکٹ 1973ئ کے تحت سنگین غداری کے مرتکب قرار پائے ہیں ، انہوں نے بطور

آرمی چیف نومبر 2007ئ میں آئین میں ترمیم کرتے ہوئے غیر قانونی پی سی او جاری کیا ، ایمرجنسی لگا کر ججز کو نظر بند کیا۔ تفصیلی فیصلے میں قرار دیا گیا ہے کہ اگر حالات مناسب نہیں تھے تو پرویز مشرف کے پاس ججز کے احتساب سمیت دیگر قانونی آپشنز موجود تھے اس لئے پرویز مشرف کے 3 نومبر 2007ئ کے اقدامات غیر قانونی ہیں۔ آئین کے

آرٹیکل 5 کے مطابق ملک سے وفاداری اور آئین و قانون کی پاسداری ہر شہری کا فرض ہے۔دوسری جانب فوج کے ہر رکن نے سیاست میں نہ آنے کا حلف اٹھایا ہوتا ہے۔ اس طرح فوج کا ہر سپاہی ملک کی خدمت کا عزم کرتا ہے۔ اس لئے 1999ئ میں فوج کی اعلیٰ کمانڈ نے بھی پرویز

مشرف کی مدد کر کے یا خاموش رہ کر اپنے حلف سے روگردانی کی ۔ خصوصی عدالت نے ٹرائل کے دوران ملزم پرویز مشرف کو دفاع کا بھرپور موقع دیاہے لیکن وہ وعدے کے باوجود عدالت میںبیان دینے کیلئے نہیں آسکے، دستاویزات کے مطابق ان پر سنگین غداری کے جرم سے متعلق الزامات کسی شک و شبہ کے بغیر ثابت ہوئے ہیں لہٰذا سنگین

غداری ایکٹ 1973ئ کے تحت پرویز مشرف کو سزائے موت سنائی جاتی ہے۔ قانون نافذ کرنیوالے ادارے پرویز مشرف کو گرفتار کر کے سزا دیں، خصوصی عدالت کے جج جسٹس شاہد کریم نے جسٹس وقار احمد سیٹھ کے مثالی سزا سے متعلق ایک پیرا گراف سے اختلاف کرتے ہوئے کہا

ہے کہ مثالی سزا کے قانون میں گنجائش نہیں ہے ، یہ غیر آئینی ہو گا۔ اگراعلیٰ عدلیہ نے نظریہ ضرورت متعارف نہ کرایاہوتا توقوم کو آج کے یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔ آرٹیکل 6 آئین کاوہ محافظ ہے جو ریاست، شہریوں میں عمرانی معاہدہ چیلنج کرنیوالے کا مقابلہ کرتا ہے۔ دوسری جانب سنگین

غداری کیس میں ملزم کو فیئر ٹرائل کا موقع اس کے حق سے زیادہ دیا گیا۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ یہ انصاف کے تقاضے کے مطابق ہو گا کہ اگر کوئی ملزم کو بھگانے میں سہولت کار ہیں تو انہیں بھی انصاف کے دائرے میں لایا جائے اور اس مجرمانہ فعل کی صورت میں تحقیقات کر کے قانون کے

مطابق کارروائی کی جائے۔ فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کیس میں فراہم کردہ ریکارڈ کو لاک میں محفوظ کر کے اس کی چابیاں تاحکم ثانی رجسٹرار کے حوالے کی جائیں۔ جسٹس نذر اکبر نے 44 صفحات پر مشتمل اختلافی فیصلے میں کہا ہے کہ استغاثہ جنرل (ر) پرویز مشرف پر جرم ثابت کرنے میں ناکام رہا اس لئے انہیں بری کیا جاتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں