صحافت اب جنگ سے کم نہیں
صحافت اتنی بھی آسان نہیں ہے جتنی ہم نے بنا دی ہے۔ پچھلے 76 سالوں میں اس کو دبانے اور آزادی صحافت کا گلا گھوٹنے کے لئے ہر حربہ استعمال کیا گیا مگر صحافی قربانیاں دیتے رہے جان کی بھی اور جاب کی بھی۔ صحافت اب سانپ سیڑھی کا کھیل بن گئی یے، کبھی کوئی صحافی آسمانوں پر تو کبھی زمین پر دیکھائی دیا جاتا ہے۔
صحافی پر تشدد کرنا ، صحافی خو مارنا یا صحافی کو سالوں تک اغوا کر دینا، یہ تو بہت دور کی بات ہے اور ایک لمبی بحث یے ۔ صحافی ان معاملات پر بات تب کتے گ جب وہ اپنے گھر کی جنگ سے فارغ ہو جائے۔ اور وہ ہے ریٹنگ کی کی جنگ ورنہ گھر واپسی۔
پاکستان میں جبر کے معاملے میں سخت سنسر شپ کی شکایات سامنے آتی رہی ہیں۔
پاکستان میں نجی نیوز چینلز کی دو دہائیوں پر محیط کارکردگی پر جہاں مختلف آرا پائی جاتی ہیں وہیں بعض مبصرین کے نزدیک مجموعی طور پر پاکستان میں صحافت کا معیار بہتر ہونے کے بجائے بتدریج تنزلی کا شکار ہے۔
وقت گزرنے کے ساتھ میڈیا کے ادارے مضبوط تو ہوئے لیکن ساتھ ہی یہ ایک منافع بخش کاروبار بھی بنتے گئے جس نے لامحالہ معیاری صحافت پر منفی اثرات مرتب کیے۔
پاکستان کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ملک میں اس وقت 90 سے زائد سیٹیلائٹ چینلز ہیں اور ان میں سے 30 چینلز صرف خبریں اور حالاتِ حاضرہ کے پروگرام پیش کرتے ہیں۔
اتنی بڑی تعداد میں خبروں کے ذریعے تو ہیں مگر سچ کیا اور جھوٹ کیا یہ سمجھ نہیں اتا۔ کہی بھی جائے یا کسی سے بھی بات کرے اور صحافت کے بارے میں بات کرے ، ہر کسی کے مطابق صحافت جھوٹ یے۔ ہر کسی کو لگتا ہے کہ صحافی کا کام صرف جھوٹ بولنا اور الزام لگانا یے۔ یہاں تک کہ ایک صحافی کہ گھر میں اب کوئی یقین نہی کرنے لگا ہے۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر یہ کیوں ہوا اور کہاں پر صحافت کی ساخت کو اس قدر نقصان ہوا کہ لوگوں کا صحافت سے اعتماد ہٹ گیا یے۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار عمر چیمہ کے مطابق اگر آج آپ ہیرو ہیں تو دوسرے ہی دن آپ کو اپنی ہی کسی رپورٹ کی وجہ سے ‘لفافہ صحافی’ قرار دے دیا جاتا ہے۔ صرف اس لیے کیوں کہ وہ کسی مخصوص حلقے کو پسند نہیں آتی۔ ان کے بقول اس وقت سیدھی اور کھری بات کرنا سب سے بڑا چیلنج بن چکا ہے کیوں کہ صحافیوں کی کردار کشی ایک معمول بن چکی ہے۔
جبکہ باعض صحافیوں کا کہنا ہے کہ جب سے کچھ امیر آر طاقتوں لوگ صحافت میں آئے ہیں تط سے صحافت کا لیول نیچے آنے لگا ہے۔ کیونکہ اب یہ ٹی وی مالکان براہِ راست بہت سے ایسے فیصلے کرتے ہیں جو بنیادی طور پر ایڈیٹر کو کرنے چاہیے یا وہاں پر موجود بیورو چیف، کنٹرولر نیوز کو کرنے چایئے۔
ان کے مطابق اخبارات میں بھی مالکان کا عمل دخل ہمیشہ سے رہا ہے لیکن ٹی وی کی مقبولیت اور بہتر آمدنی نے میڈیا مالکان کی دخل اندازی کو بہت بڑھا دیا ہے۔ یہ بھی ایک وجہ ہے کہ صحافی وہ کام نہیں کر پا رہے جو انہیں کرنا چاہیے۔ اور ریٹنگ کی دوڑ میں صحافت پیچھے رہ گئی۔
اب بات کرتے صحافت کی ایک نئی جنگ جو صحافی اپنے ہی لوگوں کے ساتھ لڑھ رہے ہیں اور ان کا اپنا کولیگ کے ساتھ سالوں تک کام کیا اور بھائیوں جیسا رشتہ ریا وہ بھی ان کی مدد کرنے کو تیار نہیں ۔ وہ جنگ ہے ڈائون سائزنگ۔
جو صحافی گذشتہ دہائی سے قبل کے میڈیا ‘ایکسپلوژن’ کے زمانے میں اچھے حالات دیکھتے ہوئے صحافت کے پیشے میں آئے تھے اب وہ کافی زیادہ مشکل وقت سے گزر رہے ہیں۔،
اسلام آباد میں نجی چینل سے تعلق رکنے والی ایک صحافی مشعل جو ٹی وی پر اصمہ شیرازی اور حامد میر کو دیکھ کر صحافت میں قدم رکھا۔ اور صحافت میں اپنی جان لگا آج وہ بھی ایک کال کی منتظر ہے کہ کب اس کو ںہوز چینل سے جاب کہ آفر آئی گی۔ مشعل 4 سال سے ایک نجی چینل کے لیے کام کر رہی تھی۔ ایک دن جب نواز شریف کی سزا کی آخری پیشی تھی ، اس دن صبح 7 بجے سے لیکر رات 8 بجے تک نیب کے سامنے اپنی ڈیوٹی کی۔ اسی دوران انسوں گیس کا بھی شکار ہوئی۔ لیکن اس کے باوجود پورا دن رپورٹنگ کی اور بریفنگ دیتی رہی جو باقی چینلز پر بھی اس کی خبر چلتی رہی۔ جب مشعل پوری دن کی محنت کے بعد 10 بجے گھر لوٹی تو ایچ آر کی جانب سے وٹس ایپ پر نوکری سے نکل جانے کا میسج آیا آور یہ بھی لکھا کہ کل آپ آفس نہ آئے اور نہ کئی مذمت کرے ورنہ آپ کی دو مہنے کی بقایا جات لیٹ ہو سکتی یے۔ جس کے بعد جب مشعل نے اپنے کولیگ سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تو انھوں نے کہاں کہ اس میں ہم آپ کی کوئی مدد نہیں کر سکتے ۔ جب مشعل نے اپنے بیورو چیف سے بات کرنے کی کوشش کی تو انھوں نے بات کرنے سے انکار کر دیا۔ مشعل کا کہنا یے کہ ان کو ایچ آر کی جانب سے ہر وقت ہراساں کیا جاتا تھا۔ جب مشعل نے ایچ آر کے ساتھ بات چیت کرنے سے انکار کیا تب سے ایچ آر ان خو تنگ کرنے لگا اور نکالنے کی کوشش میں لگ گیا۔
پہلے صحافی پورا دن خبر کی چکر میں جنگ لڑے اور آفس میں ایچ آر اور اسیسمنٹ ایڈیٹر سے۔ اگر آپ کام کرے تب بھی صحافی کو تنگ کیا جاتا ہے اور جب کام نہ کرے تب بھی۔
ڈاون سایزنگ کے مطلق وزیر اطلاعات فواد چودہری کا کہنا تھا کہ حکومت بھر پور کوشش کر رہی یے کہ صحافیوں کا تحفظ کرے۔ جب چینل مالکان سے اس کے مطلق بات کی جاتی یے تو ان کے مطابق سب ٹھیک ہوتا۔ فواد چوہدری نے بتایا کہ میڈیا ورکرز کو تحفظ دینا ہماری ذمہ داری کے لیکن میڈیا کہ اپنے لوگ ہی ایک دوسرے کا ساتھ نہیں دیتے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ نیوز چینل کا مالک کوئی صحافی نہیں جو صحافیوں کی مشکلات سمجھ سکے۔
ایک طرف میڈیا مالکان کا کہنا ہے کہ ڈاون سایزنگ اس لیے کی جارہی ہے کیونکہ حکومت کی طرف سے فنڈز روک دئے گئے ہیں۔ جبکہ حکومت یہ دعوا کرتی ہے کہ میڈیا کو فنڈز دیے جاتے ہیں۔
اس حوالے سے وزارت اطلاعات کے وزیر فواد چوہدری کا کہنا یے کہ روا سال بھی حکومت کہ طرف سے میڈیا کو 2 کروڑ روپے فنڈز دیے لیکن میڈیا مالکان کا کہنا کہ بقایاجات کافی یے اس لئے اب بھی کافی لوگوں کی تنخواہ رکھی ہوئی ہے۔
صحافیوں کی ایک تنظیم کے مطابق اب تک نا کسی صوبائی حکومت نے مدد کی ہو نا ہی وفاق نے۔ البتہ ان کو نوجوان پرگرام میں اپلائے کرنے کا کہ دیا جہاں شاید ہی ان کو کوئی رقم ملے اور وہ کوئی کاروبار جاری کر سکے۔ جے یو آئی کے مطابق کچھ چینلز کی جانب کچھ مہینوں کی تنخواہ کچھ صحافیوں کو دی گئی جبکہ اب بھی کافی صحافی یے جن کی بقایاجات باقی یے۔
وزارت اطلاعات کی سیکٹری شاہرہ شاہد سے پوچھا کہ کیا صحافیوں کو نکالنے پر کسی چینل یا مالکان کے خلاف کوئی کاروائی ہوئی تو ان کا جواب تا نہیں۔ سیکٹری شاہرہ شاہد کے مطابق جب صحافیوں کو منسٹر بلایا گیا تو ہی ایک صحافی اپنی تنظیم کے رہنما کے ساتھ آیا اور ہر تنظیم کے الگ خواہشات تھے۔ کوئی ایک بھی ایک فیصلے پر آمادہ نہیں تھا۔ شاہرہ شاہد کا کہنا تھا کہ جب اس وقت وزیر اطلاعات نے چینل کے مالکان سے بات کی تو انھوں نے ہاتھ کھڑے کر دیے اور صاف کہہ دیا کہ ہم مزید اخراجات برداشت نہیں کر سکتے۔ ان کو ں کے بقایاجات ادا کر لےگے لیکن اب چینل کی وہ حالت نہیں جو تنخواہ دے سکے۔
سیکٹری شاہرہ شاہد نے اس بات کا اشارہ دیا کہ یہ سب اس لیے کیا گیا کہ حکومت میڈیا ملیکان کو ان کہ مرضی کے فنڈز دے جو کہ ناممکن ہے۔ سیکٹری نے یہ بھی بتایا کہ بہت سے اسے میڈیا ہاوسز تھے جو بقایاجات دینا بھی نہیں چاہتے تھے جس پر وزیر اطلاعات کی جانب سے سختی کی گئی اور ان کو نوٹس بھی بھیجا گیا کہ صحافیوں کو ان کے بقایاجات ہر حال میں ادا کرنے چاہیے۔