تیل کی عالمی منڈی کو مستحکم رکھنے کے لیے تیل پیدا کرنے والے بڑے ممالک کی جانب سے کورونا وائرس کی وجہ سے عالمی سطح پر مانگ میں کمی کے بعد پیداوار کو کم کرنے کے معاہدے سے تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوگیا. آرگنائزیشن آف پیٹرولیم ایکسپورٹنگ کنٹریز (اوپیک)، روس سمیت دیگر پیداواروں کے گروہ جسے اوپیک پلس کے نام سے جانا جاتا ہے نے گزشتہ روز مئی اور جون میں تیل کی قیمتوں کو اپنی سطح پر برقرار رکھنے کے لئے 9.7 ارب بیرل فی یوم (بی پی ڈی) تک کم کرنے پر رضامند ہوگئے جو عالمی سطح پر پیداوار کا 10 فیصد ہے. جس سے برینٹ
کروڈ فیوچرز میں تیل کی قیمتیں 16 سینٹس یا 0.5 فیصد تک بڑھ کر 31.64 ڈالر فی بیرل ہوگئی جبکہ امریکی ویسٹ ٹیکساس انٹرمیڈیٹ میں کرو فیوچرز 37 سینٹ یا 1.6 فیصد اضافے کے ساتھ 23.13 ڈالر فی بیرل ہوگیا. آئی ایش مارکیٹ کے نائب صدر ڈینیئل یرجین کا کہنا ہے کہ اس معاہدے سے عالمی تیل کی صنعت اور قومی معیشت سمیت دیگر صنعتوں، جن اکا انحصار ہی اس پر ہے ایک بڑے بحران سے بچ گئے ہیں انہوں نے کہا کہہ جب مارکیٹ کی صورتحال معمول کے مطابق ہوجائے گی تو تیل کی صنعت پر پڑنے والا دباﺅ کم ہوجائے گا.

دنیا کے 3 بڑے تیل پیدا کرنے والے ممالک کے رہنما، روسی صدر ولادمیر پیوٹن، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سلمان نے اوپیک پلس معاہدے کو سراہا ہے ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ اس سے امریکا کی توانائی کی صنعت میں روزگار محفوظ ہوں گے. خیال رہے کہ گزشتہ ماہ تیل کی قیمتیں عالمی منڈی میں ریکارڈ کم ترین سطح پر آگئی تھیںقیمتوں میں کمی روس کی جانب سے تیل کی پیداوار کم نہ کرنے کے فیصلے اور سعودی عرب کے روس کو سزا دینے کے لیے پیداوار بڑھانے کے فیصلے کے بعد سامنے آئی تھیں.اس معاہدے کا مقصدتیل پیدا کرنے اور برآمد کرنے والے ممالک نے اپنی اقصادیات کو بڑے نقصان سے بچانے اور قیمتوں میں توازن قائم رکھنا ہے. معاہدے
کے تحت میکسیکو اپنی تیل کی یومیہ پیداوار میں ایک لاکھ بیرل کی کمی کرنے پر تیار ہو گیا ہے‘اجلاس میں فیصلہ کیا گیا تھایکم مئی 2020 سے اوپیک پلس گروپ کی خام تیل کی مجموعی پیداوار میں یومیہ 1 کروڑ بیرل کی کمی کی جائے گی اور پیداوار میں کمی پر عمل درامد 30 جون 2020 تک جاری رہے گا جبکہ اگلے چھ ماہ یعنی یکم جولائی 2020 سے 31 دسمبر 2020 تک مجموعی پیداوار میں یومیہ کمی 80 لاکھ بیرل ہو گی.یکم جنوری 2021 سے 30 اپریل 2022 (16 ماہ) تک تیل کی مجموعی پیداوار میں کمی کا حجم یومیہ 60 لاکھ بیرل ہو گا یہ سمجھوتا 30 اپریل 2022 تک نافذ العمل ہو گا. سمجھوتے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ تیل پیدا کرنے والے تمام بڑے ممالک پر زور دیا گیا ہے کہ وہ عالمی منڈی میں استحکام کو یقینی بنانے کی حالیہ کوششوں میں حصہ لیں‘ پیداوار میں کمی کے معاہدے کی نگرانی کے لیے مشترکہ وزارتی کمیٹی کے کردار پر زور دیا گیا اس سلسلے میں اوپیک کی مشترکہ تکنیکی کمیٹی اور سکرٹریٹ کا تعاون حاصل رہے گا.

معاہدے کے تحت اس بات کی یقین دہانی کہ خام تیل کی پیداوار میں کمی کا اطلاق ثانوی ذرائع کی جانب سے حاصل ہونے والی معلومات کی بنیاد پر ہو گا رواں سال 10 جون کو ”ویبینار“ٹیکنالوجی کے ذریعے اجلاس کا انعقاد ہو گا اجلاس میں تیل کی منڈیوں میں توازن کو یقینی بنانے کے لیے ممکنہ طور پر مطلوب اضافی اقدامات کا تعین کیا جائے گا. ماہرین معاشیات کا کہنا ہے کہ امریکا کے لیے ضروری ہوگیا تھا کہ وہ کسی بھی قیمت پر تیل پیدا کرنے والے ملکوں کو پیدوار میں کمی لانے پر آمادہ کرئے کیونکہ تیل مارکیٹ کی بدترین صورتحال میں کئی بڑی امریکی تیل کمپنیاں دیوالہ
ہونے کے قریب پہنچ گئی تھیں .ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکی تیل کمپنیوں کے دیوالیہ ہونے سے امریکی معیشت میں ایک زلزلہ برپا ہوجاتا جس کے انتہائی منفی نتائج مرتب ہوتے کیونکہ کورونا وائرس کی وجہ سے جاری لاک ڈاﺅن نے کئی کمپنیوں کو ہلاکررکھ دیا ہے اور کمپنیاں واشنگٹن سے بیل آﺅٹ پیکج مانگ رہی ہیں . ماہرین کا کہنا ہے کہ تیل کی مارکیٹ میں استحکام لانا امریکا اور عربوں کی مجبوری ہے مگر روس کو ایسی کوئی مجبوری نہیں کیونکہ اس کی اپنی مارکیٹ ہے اگر روس معاہدے سے ہٹ جاتا ہے تو امریکا اور عربوں کی معاشیات کا برا حال ہوجائے گا .. .