34

نواز شریف، شاہد خاقان نے خود پر لگائے گئے غداری کے الزامات کو مسترد کردیا

لاہور: سابق وزرائے اعظم نواز شریف اور شاہد خاقان عباسی نے لاہور ہائیکورٹ میں جمع کروائے گئے اپنے تحریری جواب میں خود پر لگائے گئے غداری کے الزامات کو ‘ناقابل تصور’ اور ‘بے بنیاد’ قرار دے کر مسترد کر دیا۔

لاہورہائی کورٹ کے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کی سربراہی میں جسٹس عاطر محمود اور جسٹس مسعود جہانگیر پر مشتمل 3 رکنی فل بنچ نے نواز شریف اور شاہد خاقان عباسی کے خلاف غداری کے الزام میں بغاوت کی کارروائی کے لیے درخواست پر سماعت کی۔

گزشتہ سماعت پر عدالت نے سابق وزرائے اعظم کو آج تحریری جواب داخل کروانے کا حکم دے رکھا تھا، جو آج جمع کروایا گیا۔

نواز شریف کا جواب

سابق وزیراعظم نواز شریف کے وکیل کے توسط سے عدالت میں جمع کرائے گئے جواب میں موقف اختیار کیا گیا کہ ‘غداری جیسا سنگین الزام ناقابل تصور ہے’۔

اپنے جواب میں نواز شریف کا کہنا تھا کہ ‘میرے ذہن میں کئی سوال اٹھ رہے ہیں کہ کیا پاکستان کے عوام بھی غدار ہیں؟ کیا مجھے وزیراعظم بنانے والےکروڑوں پاکستانیوں کی حب الوطنی مشکوک ہے؟’

نواز شریف نے مزید سوال اٹھائے کہ ‘کیا ملک کو ناقابل تسخیر بنانے والا غدار ہوتا ہے؟ کیا ملک کو دہشت گردی سے نجات دینے والا غدار ہوتا ہے؟’

تحریری جواب میں سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ‘ان کا تعلق اُس خاندان سے ہے، جس نے پاکستان کے لیے ہجرت کی، مجھے مٹی کا ذرہ ذرہ جان سے زیادہ عزیز ہے’۔

شاہد خاقان عباسی کا جواب

سابق وزیراعظم شاہدحاقان عباسی نے بھی درخواست پر جواب عدالت میں جمع کرادیا اور اپنے اوپر لگائے گئے تمام الزامات کو جھوٹا، بے بنیاد اور مفروضوں پر مشتمل قرار دے دیا۔

شاہد خاقان عباسی کا اپنے جواب میں کہنا تھا کہ ‘نیشنل سیکیورٹی کونسل اجلاس کے بارے میں نواز شریف سےکوئی بات نہیں ہوئی، اُن سے صرف پارٹی معاملات پر بات ہوئی’۔

سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ‘درخواست میں شائع ہونے والی خبر کا حوالہ بھی حقائق کے برعکس ہے’۔

نواز شریف کی عدم حاضری کی بناء پر سماعت 12 نومبر تک ملتوی

آج سماعت کے دوران صرف سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی عدالت عالیہ میں پیش ہوئے۔

جس پر جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے استفسار کیا کہ ‘نواز شریف کیوں نہیں آئے؟ انہیں آنا چاہیے تھا’۔

نواز شریف کے وکیل نصیر بھٹہ نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ‘آپ نے جواب کا کہا تھا، جو داخل کردیا گیا ہے’۔

جس پر جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے ریمارکس دیئے کہ ‘دیکھیں شاہد خاقان عباسی عدالتوں کا احترام کرتے ہیں، وہ یہاں موجود ہیں’۔

وکیل نے جواب دیا کہ ‘نواز شریف آج نہیں آئے، اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ عدالتوں کااحترام نہیں کرتے’۔

جسٹس مظاہر علی نے ریمارکس دیئے کہ ‘اگر نواز شریف کسی وجہ سے پیش نہیں ہوسکتے تھے تو آپ کو درخواست دینی چاہیے تھی’۔

وکیل نے جواب دیا کہ ‘مجھے پہلی سماعت پر تاثر ملا کہ نواز شریف کو بس ایک بار پیش ہونا ہے’۔

جس پر جسٹس مظاہر نے ریمارکس دیئے کہ ‘ٹھیک ہے آپ نے تاثر غلط لیا، مگر آئندہ پیش نہ ہونے پر درخواست دیں’۔

بعدازاں عدالت عالیہ نے نواز شریف اور شاہد خاقان عباسی کے خلاف کیس کی سماعت 12 نومبر تک ملتوی کردی۔

سابق وزرائے اعظم کے خلاف بغاوت کی درخواست کا پس منظر

واضح رہے کہ ایک شہری آمنہ ملک نے سابق وزیراعظم نواز شریف کے انگریزی اخبار کو دیئے گئے ایک متنازع انٹرویو کو بنیاد بناتے ہوئے لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی تھی، جس میں استدعا کی گئی کہ نواز شریف اور شاہد خاقان عباسی نے وزارت عظمیٰ کے حلف کی پاسداری نہیں کی اس لیے دونوں کے خلاف بغاوت کی کارروائی کی جائے۔

سابق وزیراعظم نواز شریف کا اپنے مذکورہ متنازع بیان میں کہنا تھا کہ ‘عسکری تنظیمیں نان اسٹیٹ ایکٹرز ہیں اور ممبئی حملوں کے لیے پاکستان سے غیر ریاستی عناصر گئے’۔ سابق وزیراعظم نے انٹرویو کے دوران سوال اٹھایا تھا کہ ‘کیا یہ اجازت دینی چاہیے کہ نان اسٹیٹ ایکٹرز ممبئی جا کر 150 افراد کو ہلاک کردیں، بتایا جائے ہم ممبئی حملہ کیس کا ٹرائل مکمل کیوں نہیں کرسکے؟’

نواز شریف کے اس بیان پر بھارتی میڈیا نے اسے پاکستان کے خلاف استعمال کیا جب کہ ملکی سیاسی رہنماؤں کی جانب سے بھی سابق وزیراعظم کے بیان کی شدید مذمت کی گئی۔

نواز شریف کے ممبئی حملوں سے متعلق متنازع بیان پر پاک فوج کی تجویز پر قومی سلامتی کمیٹی کا ہنگامی اجلاس اُس وقت کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی زیرصدارت ہوا جس میں نواز شریف کے بیان کو بے بنیاد قرار دیا گیا اور اس کی مذمت بھی کی گئی۔

نواز شریف کے بیان کے بعد شاہد خاقان عباسی نے وزیراعظم کی حیثیت سے سابق وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات کی اور انٹرویو کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال سے آگاہ کیا۔

درخواست گزار نے اپنی درخواست میں یہ مؤقف بھی اختیار کیا کہ نواز شریف نے متنازع انٹرویو دے کر ملک و قوم سے غداری کی جب کہ شاہد خاقان عباسی نے قومی سلامتی کمیٹی کی کارروائی سابق وزیراعظم کو بتا کر حلف کی پاسداری نہیں کی اس لیے دونوں کے خلاف بغاوت کی کارروائی کی جائے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں