21

نواز شریف کوگاڈ فادر اور سسیلین مافیامیں نے نہیں بولا، اصل کہانی کیا تھی؟سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے حیران کن انکشاف کر دیا

لاہور (ویب ڈیسک) ماضی اور مستقبل کے درمیان ‘زمانہ حال’ ایک پتلی سی لکیر ہے۔آپ کا کوئی بھی اقدام یا زبان سے نلکا لفظ دوسرے لمحے ماضی ہوجاتا ہے۔جو شخص اس دنیا میں آیا اس نے جہانِ فانی سے ایک دن ضرور جانا ہے۔کوئی نہیں کہتا کبھی نہیں مرنا،اگلے لمحے سانس آنا ہے یا نہیں،

نامور کالم نگار فضل حسین اعوان اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔اس پر ایمان رکھنے والوں کے دل کے کسی نہاں خانے میں یہ سوچ بھی ہوتی ہے: ابھی نہیں مرنا۔اگر کسی بھی لمحے جان جانِ آفریں کے سپرد ہونے کا یقین کامل ہو تو لوگ دنیا داری سے تائب ہوکر عبادت خانوں سے باہر نہ نکلیں۔ایسے شخص کی حالت کبھی دیکھی ہے؟ جسے ڈاکٹر نے کہا ہو آپکے پاس زندگی کا ایک ہفتہ ہے۔سزائے موت کے قیدی کی زندگی کے آخری ماہ کی روداد سنیں یا مشاہدہ کرنیوالوں سے پوچھ لیں۔جو شخص دنیا میں آیا اس نے جانا بھی ہے اسی طرح جس نے ملازمت کی اس نے ریٹائر بھی ہونا ہے۔نوے سال کی زندگی گزارنے کے بعد بھی انسان ماضی پر نظر ڈالتا ہے تو اسے نوے سال بھی ایک لمحے سے زیادہ محسوس نہیں ہوتے۔آپ عمر کے جس حصے میں بھی ہیں۔ذرا ماضی کا جائزہ لیں۔پوری زندگی اعمال کی صورت میں کبھی نہ کبھی ہمارے سامنے ضرور ہوگی۔اسی طرح اگر آپ نے کوئی ملازمت کی توریٹائرمنٹ کے بعد پس منظر آپکے سامنے پیش منظر بن کرکھڑا ہوگا۔ ضمیر کہیں مطمئن، کہیں مضطرب مگر مؤالذکر صورت میں اصلاح ناممکن۔ ملازمت کے دوران پبلک عہدے کی صورت میں ہزاروں لاکھوں متعلقین و وابستگان بھی ہوسکتے ہیں۔وہ آپکے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں۔مثبت یا منفی، اسکا انحصار آپکے انکے ساتھ روا رکھے رویے پر ہے۔آپ سب کو مطمئن نہیں کرسکتے۔اگر آپ کا ضمیر مطمئن ہے اور کام اللہ کی رضا کیلئے کیا توخلق خدا بھی گواہی دے گی۔

آج جسٹس آصف سعید خان کھوسہ ماضی اور مستقبل کی باریک لکیر کے دوسری طرف ہونگے۔جسٹس کے ساتھ کل سے سابق کا لاحقہ لگ جائیگا۔انکے بارے میں آج سے گُنگ زبانیں دراز ہونے لگیں گی۔ زہر اگلا جانے لگے گا،الزامات کی برسات ہوگی،اس سب کو انہوں نے خود فیس کرنا ہے کل تک سپریم کورٹ انکی طرف سے تائیدی یا تردیدی بیانات جاری کرتی تھی جیسا ان کی ریٹائرمنٹ سے قبل یہ تردید جاری کی گئی۔’’سپریم کورٹ نے پرویز مشرف کیس پر چیف جسٹس کی گفتگو سے متعلق خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا، میڈیا پر چلائی گئی خبریں من گھڑت اور بے بنیاد ہیں۔ سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ خبریں چلانے والے ادارے اسی انداز میں سپریم کورٹ کی تردید کو چلائیں۔ مشرف کیس میں چیف جسٹس نے عدالتی احکامات کے علاوہ کوئی حکم نہیں دیا‘‘۔اب ذرا ملاحظہ کیجئے وہ خبر کیا تھی جس کی پُزور تردید کی گئی۔’’چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے سابق صدر و آرمی چیف پرویز مشرف کی سزائے موت سے متعلق کہا ہے،کئی مواقع پر لالچ دی گئی اور دانا ڈالا جاتا رہا لیکن میں نے دانا نہیں چُگا۔پرویز مشرف کا کیس اوپن اینڈ شٹ کیس تھا، عدل کریں تو کسی بات کا کوئی خوف نہیں ہوتا۔ چیف جسٹس نے مزید کہا کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے فیصلے کے دور رس اثرات ہوں گے جو آپ کو بعد میں پتہ لگیں گے۔چیف جسٹس نے کہا کہ میں نے پاناما کیس کے فیصلے میں گاڈ فادر نہیں لکھا لیکن عرفان قادر نے 100 مرتبہ پروگراموں میں کہاکہ میں نے نوازشریف کوگاڈ فادر لکھا، پھر سسیلین مافیا کی بات بھی مجھ سے جوڑ دی گئی۔

لاہور (ویب ڈیسک) ماضی اور مستقبل کے درمیان ‘زمانہ حال’ ایک پتلی سی لکیر ہے۔آپ کا کوئی بھی اقدام یا زبان سے نلکا لفظ دوسرے لمحے ماضی ہوجاتا ہے۔جو شخص اس دنیا میں آیا اس نے جہانِ فانی سے ایک دن ضرور جانا ہے۔کوئی نہیں کہتا کبھی نہیں مرنا،اگلے لمحے سانس آنا ہے یا نہیں،

نامور کالم نگار فضل حسین اعوان اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔اس پر ایمان رکھنے والوں کے دل کے کسی نہاں خانے میں یہ سوچ بھی ہوتی ہے: ابھی نہیں مرنا۔اگر کسی بھی لمحے جان جانِ آفریں کے سپرد ہونے کا یقین کامل ہو تو لوگ دنیا داری سے تائب ہوکر عبادت خانوں سے باہر نہ نکلیں۔ایسے شخص کی حالت کبھی دیکھی ہے؟ جسے ڈاکٹر نے کہا ہو آپکے پاس زندگی کا ایک ہفتہ ہے۔سزائے موت کے قیدی کی زندگی کے آخری ماہ کی روداد سنیں یا مشاہدہ کرنیوالوں سے پوچھ لیں۔جو شخص دنیا میں آیا اس نے جانا بھی ہے اسی طرح جس نے ملازمت کی اس نے ریٹائر بھی ہونا ہے۔نوے سال کی زندگی گزارنے کے بعد بھی انسان ماضی پر نظر ڈالتا ہے تو اسے نوے سال بھی ایک لمحے سے زیادہ محسوس نہیں ہوتے۔آپ عمر کے جس حصے میں بھی ہیں۔ذرا ماضی کا جائزہ لیں۔پوری زندگی اعمال کی صورت میں کبھی نہ کبھی ہمارے سامنے ضرور ہوگی۔اسی طرح اگر آپ نے کوئی ملازمت کی توریٹائرمنٹ کے بعد پس منظر آپکے سامنے پیش منظر بن کرکھڑا ہوگا۔ ضمیر کہیں مطمئن، کہیں مضطرب مگر مؤالذکر صورت میں اصلاح ناممکن۔ ملازمت کے دوران پبلک عہدے کی صورت میں ہزاروں لاکھوں متعلقین و وابستگان بھی ہوسکتے ہیں۔وہ آپکے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں۔مثبت یا منفی، اسکا انحصار آپکے انکے ساتھ روا رکھے رویے پر ہے۔آپ سب کو مطمئن نہیں کرسکتے۔اگر آپ کا ضمیر مطمئن ہے اور کام اللہ کی رضا کیلئے کیا توخلق خدا بھی گواہی دے گی۔

آج جسٹس آصف سعید خان کھوسہ ماضی اور مستقبل کی باریک لکیر کے دوسری طرف ہونگے۔جسٹس کے ساتھ کل سے سابق کا لاحقہ لگ جائیگا۔انکے بارے میں آج سے گُنگ زبانیں دراز ہونے لگیں گی۔ زہر اگلا جانے لگے گا،الزامات کی برسات ہوگی،اس سب کو انہوں نے خود فیس کرنا ہے کل تک سپریم کورٹ انکی طرف سے تائیدی یا تردیدی بیانات جاری کرتی تھی جیسا ان کی ریٹائرمنٹ سے قبل یہ تردید جاری کی گئی۔’’سپریم کورٹ نے پرویز مشرف کیس پر چیف جسٹس کی گفتگو سے متعلق خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا، میڈیا پر چلائی گئی خبریں من گھڑت اور بے بنیاد ہیں۔ سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ خبریں چلانے والے ادارے اسی انداز میں سپریم کورٹ کی تردید کو چلائیں۔ مشرف کیس میں چیف جسٹس نے عدالتی احکامات کے علاوہ کوئی حکم نہیں دیا‘‘۔اب ذرا ملاحظہ کیجئے وہ خبر کیا تھی جس کی پُزور تردید کی گئی۔’’چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے سابق صدر و آرمی چیف پرویز مشرف کی سزائے موت سے متعلق کہا ہے،کئی مواقع پر لالچ دی گئی اور دانا ڈالا جاتا رہا لیکن میں نے دانا نہیں چُگا۔پرویز مشرف کا کیس اوپن اینڈ شٹ کیس تھا، عدل کریں تو کسی بات کا کوئی خوف نہیں ہوتا۔ چیف جسٹس نے مزید کہا کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے فیصلے کے دور رس اثرات ہوں گے جو آپ کو بعد میں پتہ لگیں گے۔چیف جسٹس نے کہا کہ میں نے پاناما کیس کے فیصلے میں گاڈ فادر نہیں لکھا لیکن عرفان قادر نے 100 مرتبہ پروگراموں میں کہاکہ میں نے نوازشریف کوگاڈ فادر لکھا، پھر سسیلین مافیا کی بات بھی مجھ سے جوڑ دی گئی۔

جسٹس آصف سعید نے مزید کہا کہ انگریز نے اپنے گزٹیئر میں لکھا کہ پنجابی کو ساتھ لیکرچلنا چاہتے ہو تو اسے لیڈ کرو، سندھی کا استحصال، پٹھان کو رشوت اور بلوچ کو عزت دو۔ خصوصی عدالت کے سربراہ کو نامزدکیا لیکن نوٹیفکیشن کے بعد سیکرٹری لاء کو ہٹا دیا گیا، قانون کی حکمرانی سے معاشرے اور ملک ترقی کرتے ہیں‘‘۔یہ جسٹس کھوسہ کی وہ مبینہ گفتگو ہے جو انہوں نے صحافیوں کے ساتھ اپنے چیمبر میں ملاقات کے دوران کی۔ اس گفتگو کا زیادہ حصہ آف دی ریکارڈ تھا۔ عدالتی کوریج کرنے والے صحافیوں کیساتھ جسٹس کھوسہ کی یہ الوداعی ملاقات تھی۔ اس کا ایک ایک لفظ ملاقات میں شامل افراد کے لیے امانت تھا۔ اسکے آن ریکارڈ حصے کو لوگوں تک پہنچانا ان کا اولین فرض جبکہ آف دی ریکارڈ کو سینے میں دفن رکھنا دیانت اور اخلاقیات کا تقاضہ تھا مگر کچھ نادانوں نے آف دی ریکارڈ حصے کو بھی طشت ازبام کر کے اپنی ذمہ داری سے انحراف اور جسٹس کھوسہ کیلئے مشکلات کا پہاڑ کھڑا کر دیا۔ جن باتوں کے بارے میں سپریم کورٹ کی پریس ریلیز میں کہا گیا سباق و سباق سے ہٹ کر کی گئی ہیں ان سے بادی النظر میں مفر ممکن نہیں۔ اس ملاقات جس میں کھوسہ صاحب نے کھل کر اپنا ماضی الضمیر بیان کیا اس کی ویڈیو بنانے کی اجازت نہیں تھی لہٰذا اس کا کوئی باقائدہ ریکارڈ نہیں۔ تاہم کچھ لوگوں نے اس ملاقات کی آڈیو ریکارڈ کر لی جو جلد یا بدیر منظر پر آنی ہی ہے۔اس میں ایسا بہت کچھ بھی کہا گیا

جس کی تردید کی گئی یہ اس کا عشر عشیر بھی نہیں ہے۔اس معاملہ کا کسی کورٹ میں جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تاہم اس کاان کی شہرت پر فرق اور اثر ضرور پڑے گا۔ کئی کی نظر میں وہ مزید معتبر اور کئی کیلئے معتوب ترہو جائیں گے۔جسٹس کھوسہ کا آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی توسیع کے حوالے سے فیصلہ ان کے پورے عدالتی کیرئیر پر حاوی نظر آتا ہے۔جنرل باجوہ بلکہ فوج کے حامی اور مخالفین اسے اپنے اپنے نکتہ نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کی سزائے موت کے حوالے سے فیصلے کو کچھ لوگوں کی طرف سے جسٹس کھوسہ کی ذاتی دلچسپی پر محمول کیا جاتاہے۔ ان دونوں فیصلوں پر پاکستان کے اندراور باہر پاک فوج کو ٹیڑھی آنکھ سے دیکھنے والوں نے جشن منایا گیا۔ بھارتی میڈیا بھی شادیانے بجاتا نظر آیا ہے۔ جسٹس کھوسہ آج ریٹائر ہو رہے ہیں۔ میں ان کوجسٹس ثاقب نثار کی طرح مثالی جج سمجھتا ہوں۔ دونوں نے پاکستان کے سب سے بڑے کرپٹ کو قوم کے جسد سے الگ کرنے میں اپنا اپنا کردار کسی خوف ، مصلحت اور لالچ سے بالاتر ہو کر ادا کیا۔ ان سے اگر غلط فیصلے ہوئے تو کرپشن کے ناسور کے خلاف جرأت مندانہ فیصلہ ان کے کفارے کیلئے کافی ہے۔ جسٹس کھوسہ خدا افظ اور شاید…؟ (

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں