15

‘ وقت ختم ہوا’، پاک فوج نے پی ٹی ایم رہنماؤں کو متنبہ کردیا

پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے رہنماؤں کو متنبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب وقت ختم ہوا اور ساتھ ہی ان سے 5 سوال پوچھیں ہیں جن کے جواب قانونی دائرے میں رہ کر مانگنے کا اعلان بھی کردیا۔

راولپنڈی میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور نے ملک کی موجودہ سیکیورٹی صورتحال، پاک-بھارت کشیدگی، پشتون تحفظ موومنٹ، مدارس، بنگلہ دیش اور دیگر امور پر بات چیت کی۔

پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب یہ موومنٹ شروع ہوئی تو سب سے پہلے ان سے ان کی بات ہوئی اور اس وقت آرمی چیف نے کہا تھا کہ یہ غلط بات بھی کہیں تو ان پر سخت ہاتھ نہیں رکھنا کیونکہ یہ ان نوجوان کی بات کرتے ہیں جنہوں نے شروع سے جنگ دیکھی ہے۔

میجر جنرل آصف غفور کا کہنا تھا کہ پی ٹی ایم کے ساتھ ملاقات ہوئی تو محسن داوڑ نے اگلے دن کہا کہ آپ نے اعلان کردیا ہے، ان کی محسن داوڑ اور ان کے رہنماؤں سے بات چیت ہوئی تو انہوں نے کہا کہ ان کے 3 مطالبات ہیں۔

ترجمان پاک فوج نے کہا کہ ان کا پہلا مطالبہ یہ تھا کہ قبائلی علاقوں میں بارودی سرنگیں (مائنز) ہیں چونکہ ان علاقوں میں جنگ ہوئی ہے، وہاں دیسی ساختہ بم پڑے ہیں، یہ جائز مطالبہ تھا، اس پر ہم نے کام بھی کیا اور 48 ٹیمیں تعینات کیں اور انجینئرز نے 45 فیصد علاقے کو مائنز سے کلیئر کیا۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ فوج جن علاقوں کو کلیئر کروانے جاتی ہے وہ علاقے موت ہیں اور اس حوالے سے آگاہی مہم بھی چلائی گئی کہ یہاں دیسی ساختہ بم موجود ہیں یہاں کا رخ نہ کریں، بچوں اور جوانوں کو بتایا گیا کہ اس کی ساخت کیا ہے، نظر آئے تو اسے ہاتھ نہ لگائیں ہمیں اطلاع دیں۔

میجر جنرل آصف غفور کا کہنا تھا کہ جب سے ان 48 ٹیموں نے یہ کلیرنس آپریشن شروع کیا ہے تو اس کے باوجود پاک فوج کے 101 جوان شہید ہوئے ہیں، یہ کس لیے شہید ہوئے، یہ سب اپنا کام کرتے ہوئے شہید ہوئے لیکن اس لیے کام کیا کیونکہ مطالبہ بھی جائز تھا۔

انہوں نے کہا کہ پی ٹی ایم کا دوسرا مطالبہ یہ تھا کہ چیک پوسٹیں ختم کی جائیں، اس پورے آپریشن کے دوران 6 ہزار پاک فوج کے جوانوں نے جانوں کا نظرانہ دیا، یہ جو پشتونوں کے تحفظ کی بات کرتے ہیں یہ اس وقت کہاں تھے جب لوگوں کے گلے کاٹے جارہے تھے، آج جب بحالی کا کام شروع ہوگیا تو تحفظ کی بات کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پی ٹی ایم کا دوسرا مطالبہ چیک پوسٹ سے متعلق تھا، وہاں چیک پوسٹیں پاک فوج کی ہوتی ہیں اس میں ہم یہ نہیں کہتے کہ اس صوبے کا فوجی ہے، ان آپریشنز کے دوران 6 ہزار سے زائد فوجی شہید ہوئے وہ تمام کسی ایک صوبے کے نہیں تھے، ان میں کراچی کا جوان بھی تھا، سیالکوٹ کا تھا، لیاری، کشمیر، بلوچستان کا بھی تھا، اس کا خاندان وہاں نہیں تھا، جب اس نے خیبر میں شہادت دی یا اس کا بازو گیا یا وہ چیک پوسٹ پر کھڑا تھا اور دھماکا ہوگیا تو وہ اپنے خاندان کی حفاظت کے لیے وہاں نہیں کھڑا تھا۔

میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ یہ جو پشتون تحفظ کی بات کرتے ہیں یہ اس وقت کہاں تھے جب وہاں لوگوں کے گلے کٹ رہے تھے اور وہاں فٹ بال کھیلا جارہا تھا، تب محسن داوڑ، منظور پشتین اور علی وزیر کہاں تھے، ذرا پوچھیں ان سے؟

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ اس وقت تو پاک فوج نے جاکر دہشت گردوں سے لڑائی کی تھی اور انہیں وہاں سے نکالا تھا، آج جب حالات ٹھیک ہوگئے ہیں، جب ترقیاتی کام اور بحالی کا کام شروع ہوگیا ہے تو تحفظ کی بات ہورہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی ایم کا تیسرا مطالبہ لاپتہ افراد سے متعلق تھا، یہ ابتدائی طور پر 6، 7 ہزار لاپتہ افراد کی فہرست لے کر آئے، اس پر بہت کام ہوا، اس حوالے سے قانونی طریقے سے جو کمیشن بنا وہ روزانہ کی بنیادوں پر ان کی بات سنتا ہے اور اب یہ فہرست میں تعداد کم ہوگئی ہے جبکہ 2500 ہزار کیسز ایسے ہیں جو حل نہیں ہوئے۔

ترجمان پاک فوج نے کہا کہ یہ 3 مطالبات ان کے نہیں ہیں نہ ہی تکلیفیں ان کی ہیں، یہ مطالبات اور تکلیفیں ان پٹھان بھائیوں کی ہیں جو دن رات وہاں رہتے ہیں یہ تو لوگ تو وہاں رہتے بھی نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ فوج سے زیادہ کس کی خواہش ہوگی کہ وہ علاقے بحال ہوں، وہاں روزگار آئے، لوگ وہاں خوش رہیں کیونکہ وہاں کے مقامی لوگوں کے مسائل جائز ہیں۔

اس موقع پر میجر جنرل آصف غفور نے سیکیورٹی اداروں کی جانب سے پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) سے 5 سوالات کیے۔


پی ٹی ایم سے کیے گئے پاک فوج کے سوالات

  • انہوں نے کہا کہ پی ٹی ایم کی ویب سائٹ پر چندے کی تفصیل دی گئی ہے کہ یہ بیرون ملک، جہاں بھی پٹھان مقیم ہیں، ان سے فنڈ اکٹھا کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے ساتھ زیادتی ہورہی ہے، میں ان سے پوچھتا ہوں کہ جو آپ نے ویب سائٹ پر تفصیل دی ہے اس سے بہت زیادہ پیسہ اکٹھا ہوا ہے؟
  • ترجمان پاک فوج نے کہا کہ پی ٹی ایم بتائے ان کے پاس کتنا پیسہ ہے اور یہ کہاں سے آیا ہے؟ مالی معاملات سے متعلق 22 مارچ 2018 کو این ڈی ایس نے انہیں احتجاج جاری رکھنے کے لیے کتنے پیسے دیے؟ کہاں دیے اور وہ کہاں ہیں؟
  • ڈی جی آئی ایس پی آر نے سوال کیا کہ اسلام آباد میں سب سے پہلے دھرنے کے لیے بھارتی خفیہ ایجنسی ‘را’ نے پی ٹی ایم کو کتنے پیسے دیے، کس طریقے سے پہنچے اور انہوں نے کہاں استعمال کیے؟ 8 اپریل 2018 کو قندھار میں قائم بھارتی قونصل خانے میں منظور پشتین کا کون سا رشتے دار تھا جو وہ اس قونصل خانے میں گئے، اس سے ملاقات ہوئی ساتھ میں ایک دوست بھی تھا، انہیں کتنے پیسے دیے اور وہ پاکستان کیسے آئے؟ 8 مئی 2018 کو جلال آباد میں قائم بھارتی قونصل خانے نے طورخم میں احتجاجی ریلی کے لیے کتنے پیسے دیے، وہ پیسے کس طریقے سے آئے اور کہاں ہیں؟
  • ترجمان پاک فوج نے کہا کہ محمد اسمٰعیل بون ژوندون ٹی وی کا پشتون تحفظ موومنٹ سے کیا تعلق ہے؟ مئی 2018 میں بھارتی سفارت کاروں نے کتنے ڈالر دیے، کس لیے دیے اور کیسے آپ تک پہنچے؟
  • ڈی جی آئی ایس پی آر نے پوچھا کہ پی ٹی ایم بتائے کہ حوالہ، ہنڈی کے ذریعے افغانستان سے کتنا پیسہ آرہا ہے؟ ان کا کہنا تھا کہ کابل میں حاجی میر افغان صافی اور دبئی میں نصیر زادران ان دونوں کا پی ٹی ایم سے کیا تعلق ہے؟ کیا وہ آپ کو سپورٹ کرتے ہیں، کیسے کرتے ہیں؟
  • ان کا کہنا تھا کہ 31 مارچ 2019 کو ارمان لونی کے جہلم اور پشاور کے جلسے کے لیے این ڈی ایس نے کتنے پیسے دیے؟ وہ پیسے کیسے پہنچے اور کیسے آپ نے استعمال کیے؟
  • ڈی جی آئی ایس پی آر نے سوال کیا کہ مشعل خان کینیڈا سے کابل کیوں آیا ہے؟ پی ٹی ایم اور بلوچ علیحدگی پسندوں کا کیا تعلق ہے؟

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ایس پی طاہر داوڑ افغانستان میں شہید ہوتے ہیں، حکومتِ پاکستان، حکومتِ افغانستان سے ان کے جسدِ خاکی کی واپسی کے لیے بات چیت کررہی ہے اور اس کے لیے ایک طریقہ کار ہے لیکن پی ٹی ایم کس بنیاد پر وہاں بات کررہی ہے کہ ہمیں قبیلے کی سطح پر جسدِ خاکی دیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ یہ حکومت کا کام ہے، 2 ممالک کا کام ہے یا آپ کا ذاتی کام ہے؟ کیوں منع کیا گیا کہ طاہر داوڑ کا جسدِ خاکی حکومتی نمائندوں کو نہیں دینا، آپ پاکستان کے ایم این اے ہیں، آپ پر پاکستان کا قانون لاگو ہوتا ہے، آپ کیسے زبردستی سرحد پار کرکے افغانستان جاسکتے ہیں اور ساتھ لوگوں کو بھی لے کر جائیں؟ کون سا قانون اجازت دیتا ہے کہ آپ اشتعال انگیزی کرائیں لوگوں کو پکڑیں ایک جلوس بنائیں اور کہیں کہ میں نے آج افغانستان جانا ہے۔

پاک-بھارت کشیدگی

پریس بریفنگ کے دوران پاک فوج کے ترجمان نے پاک-بھارت کشیدگی پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اس پر 22 فروری کو بات چیت کی تھی جب انہوں نے ہم پر پلوامہ کے الزامات عائد کیے تھے، میں نے اس وقت وجوہات کا ذکر کیا تھا کہ پاکستان کس طرح اس حملے کے ساتھ ملوث نہیں، ساتھ ہی بھارت کو یہ بھی کہا تھا کہ وزیراعظم عمران خان کی جانب سے تحقیقات کی تجاویز پر سنجیدگی سے غور کریں، اس کے بعد 26 فروری کی صبح انہوں نے ہماری فضائی حدود کی خلاف ورزی کی جسے ہم نے ناکام بنایا۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ انہیں میں نے نوٹس بھی دیا تھا کہ اب ہمارے جواب کا انتظار کریں کیونکہ وزیر اعظم نے کہا تھا کہ ہم جواب دینے کے لیے مجبور ہوں گے، پھر 27 فروری کو بھرپور جواب دینے کے بعد ان کے 2 جہاز گرانے اور ایک پائلٹ گرفتار کرنے کے بعد بات چیت کی اور تفصیلات بتائی تھیں۔

انہوں نے کہا کہ آج 27 فروری کو گزرے 2 ماہ ہوگئے لیکن بھارت ان گنت جھوٹ بولے جارہا ہے، ہم نے ذمہ دار ملک کا ثبوت دیتے ہوئے ان کی لفظی اشتعال انگیزی کا بھی جواب نہیں دیا، یہ نہیں کہ ہم جواب نہیں دے سکتے، وہ جھوٹ بولیں اور ہم ان کا جواب دیں، جھوٹ کو سچ کرنے کے لیے بار بار جھوٹ بولنا پڑتا ہے جبکہ سچ ایک مرتبہ کہا جاتا ہے تو ہم نے ان کے ان جھوٹوں کا بھی جواب نہیں دیا اور ذمہ دار رہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اسی لیے ان کو بار بار جھوٹ بولنا پڑ رہا ہے، حقیقت یہ تھی کہ پلوامہ میں ایک واقعہ ہوا اور وہ کوئی پہلا واقعہ نہیں تھا پولیس کے خلاف اس قسم کے حملے وہاں 3، 4 سال سے جاری ہیں، اسی قسم کے واقعات ایک مقامی ایکشن کے طور پر پولیس کے خلاف پہلے بھی ہوتے رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے بھارت کی فضائی کارروائی ناکام بنائی، نہ ہمارا کوئی جانی نقصان ہوا اور نہ ہی انفرااسٹکچر کو کوئی نقصان پہنچا، یہ صرف مقامی میڈیا ہی نے نہیں بین الاقوامی میڈیا نے بھی دیکھا بلکہ ہم نے تو میڈیا کو بھی اس جگہ کا دورہ کروایا اور بین الاقوامی میڈیا سے کہا کہ بھارت جو یہ کہتا ہے کہ ہم نے انفرااسٹرکچر کو تباہ کردیا اور 300 لوگوں کو ماردیا تو اس سے کہیں کہ ایک مرتبہ اس کا ڈیمو دے دیں اگر ایسا ہوگیا تو ہم مان لیں گے۔

میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ اگر انہیں اب بھی تسلی نہیں ہوئی تو میں کہتا ہوں کہ اپنا میڈیا پاکستان بھیج دیں، میں انہیں سہولت دوں گا کہ جاکر دیکھیں کہ کہاں اسٹرائک کیں؟ تاہم پاک فضائیہ نے بھارت کے 2 طیارے گرائے اور اس کا ملبہ پوری دنیا نے زمین پر دیکھا جبکہ بھارتی فضائیہ نے ہماری فضائیہ کے ڈر سے اپنا ایم آئی 17 ہیلی کاپٹر گرادیا اور اس کا بلیک باکس بھی گم کردیا۔

پاک فوج کے ترجمان نے کہا کہ بھارت نے اسٹوری بنائی کہ پہلے ڈی جی آئی ایس پی آر نے 2 پائلٹ بتائے جو بعد میں ایک ہوگیا تو میں بتادوں کہ جنگ کے دوران ایسی رپورٹس آتی ہیں اور اس وقت 2 کی رپورٹس تھیں تاہم بعد ازاں یہ بتایا گیا کہ ایک ہی پائلٹ کی رپورٹ 2 جگہ سے ہوئی اور میں نے بعد میں اس کی تصیح بھی کی لیکن بھارت دوسری بات کو ہی لے کر بیٹھا ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بھارت نے دعویٰ کیا کہ ہمارا ایف 16 طیارہ مار گرایا ہے، آج کل موٹرسائیکل گرجائے تو خبر نہیں چھپتی ایف 16 تو بہت بڑی بات ہے، بعد ازاں امریکا نے پاکستان کے ایف 16 کی گتنی کی جو سب نے پڑھی، لہٰذا جھوٹ کے کوئی پاؤں نہیں ہوتے۔

بالاکوٹ پر بھارتی دعوؤں پر ان کا کہنا تھا کہ آپ نے رات میں کارروائی کی کوشش کی ہم نے دن میں کارروائی کی، آپ نے ایک ہدف کو نشانہ بنانے کے لیے 4 میزائل گرائے، ہم نے 4 ہدف کو انگیج کرنے کے لیے 6 میزائل گرائے، وہ میزائل جس گولہ بارود کے ڈپو کے پاس گرے اس کے بارے میں بتائیں کہ وہ استعمال کے قابل ہے یا نہیں جبکہ ہماری اسٹرائک جس بریگیڈ ہیڈ کوارٹر کے پاس گئی وہاں کون موجود تھا یہ بھی بتایا جائے، آپ کہتے ہیں کہ پاکستان کا رویہ تبدیل کرنا ہے لیکن آپ تو یہ نہیں کرسکے لیکن ہمارے اچھے رویے کو دیکھتے ہوئے کچھ چیزیں آپ نے شروع کردی ہیں۔

میجر جنرل آصف غفور کا کہنا تھا کہ ہمیں اچھا لگتا ہے کہ آپ ہماری اچھی باتیں اپنائیں، آپ کے رویے میں ہم نے تبدیلی ڈال دی ہے لیکن آپ جو رویے کی تبدیلی ہم میں چاہتے ہیں وہ کبھی ممکن نہیں ہوسکتی۔

انہوں نے کہا کہ جب 28 فروری کو بھارت میزائل کی تیاری کررہا تھا تو اس کے جواب میں دیکھا کہ ہم نے کیا کیا وہ بھی میڈیا کو بتائیے جبکہ اس رات لائن آف کنٹرول پر کیا ہوا اور ہم نے آپ کی کتنی گن پوسٹوں کو نشانہ بنایا، کتنے جوان بھارت کے مارے گئے یہ باتیں بھی سامنے لائیں اور ہم خواہش کرتے ہیں کہ آپ ہمارے اس اچھے پیغام کو دیکھ کر امن کی جانب چلیں گے۔

میجر جنرل آصف غفور کا کہنا تھا کہ بھارتی میڈیا نے جو کردار ادا کیا اگر وہ نہ کرتا تو آج مشرق پاکستان الگ نہ ہوتا جبکہ ہمارے میڈیا نے ذمہ داری کا ثبوت دیا لیکن آپ کے میڈیا کو رویہ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔

ملک کی سیکیورٹی صورت حال

ملک کی سیکیورٹی صورتحال پر بات چیت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی 60 فیصد آبادی 25 سے 30 سال کے درمیان ہے، ان بچوں نے اپنے ہوش سنبھالنے کے بعد ملک میں دہشت گردی، آپریشن اور امن و امان کی صورتحال دیکھی۔

اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 60 اور 70 کی دہائی میں پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن تھا، ہماری جی ڈی پی بہت اچھی تھی، ہمارے یہاں امن و امان کی صورتحال بہت بہتر تھی، بین المذاہب ہم آہنگی تھی لیکن پھر ایسا ہوا جس کی وجہ سے پاکستان کو مشکلات ہوئیں۔

میجر جنرل آصف غفور کا کہنا تھا کہ 4 ایسی وجوہات ہیں جس سے یہ سب ہوا، پہلا یہ کشمیر کا معاملہ کیونکہ کشمیر ہماری رگوں میں دوڑتا ہے اور یہ ہمارے نظریے کے ساتھ ہے، ہر پاکستانی کے ذہن میں ہے کہ کشمیر کو ہم نے آزاد کرانا ہے، اس کے لیے کئی جنگیں ہوئیں، دوسرا یہ پاکستان کی ایک جغرافیہ ہے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ خطے میں افغانستان میں 40 سال سے پہلے سوویت یونین آئی پھر نائن الیون کے بعد امریکی فورسز آئیں تو خطے کے اندر بین الاقوامی پراکسیز چل رہی ہیں جس کے نتیجے میں 1979 کے بعد افغان جنگ کے ساتھ ایک جہاد کی ترویج شروع ہوئی، ساتھ ہی ایران میں انقلاب آیا جس کا ہمارے معاشرے پر یہ اثر ہوا کہ مدرسے بڑھنے شروع ہوگئے ان میں جہاد کی تر ویج زیادہ ہوگئی۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان میں جو جنگ چل رہی تھی اسے جائز قرار دے کر اس حساب سے فیصلے لیے گئے اور اس طریقے سے پاکستان میں ایک جہاد کی فضا قائم ہوگئی، اس کے علاوہ خطے میں دوسری پراکسیز تھیں، سعودی عرب اور ایران ان کے درمیان فرقہ وارانہ فسادات شروع ہوگئے اور عسکریت پسندی اور انتہا پسندی ہمارے معاشرے میں شامل ہونا شروع ہوگئی۔

میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ11 ستمبر کے بعد جب عالمی منظرنامہ تبدیل ہوا اس سے ہمارے خطے میں طاقت کی بنیاد پر مقابلہ جیوپولیٹیکس کے ساتھ ساتھ جیو اکانومی پر بھی شروع ہوگئی، امریکا کے اپنے مفادات ہیں، چین کے اپنے، بھارت کے اپنے اور ہمارے اپنے مفادات ہیں تو بین الاقوامی قوتوں نے چاہا کہ ان کی سوچ اور ان کے فائدے کے مطابق پاکستان کی پالیسی بنانے پر مجبور کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ اس حساب سے ایک ماحول بنتا ہے کہ کس طریقے سے بین الاقوامی قوتیں اس فریم ورک میں لانے کے لیے کوشش کرتی ہیں طاقت کے کیسے حربے استعمال کرتے ہیں، کس کس قسم کے حملے ہوتے ہیں جنہیں ہم ففتھ جنریشن اور ہائبرڈ وار کہتے ہیں وہ چل رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بھارت میں جو اسلام کے خلاف باتیں شروع ہوئی ہیں، اس پر یہاں کے عوام کے دل میں درد ہوتا ہے، ان چیزوں کی وجہ سے 4 دہائیاں پاکستان کو اس دہانے پر لے کر آئیں۔

ان تمام چیزوں پر بات چیت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ افغانستان سے پاکستان میں جب دہشت گردی آئی تو پاکستان نے دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں کیں۔

پاک فوج کے ترجمان کا کہنا تھا کہ 2014 میں نیشنل ایکشن پلان بنایا جبکہ 2016 میں آرمی چیف نے کہا کہ ہم نے جو 40 سال پہلے بویا وہ کاٹا بھی، جس پر کہا گیا کہ فوج نے اپنی غلطی تسلیم کرلی۔

انہوں نے کہا کہ ریاست پاکستان بہت عرصہ پہلے فیصلہ کرچکے تھی کہ ہم نے اپنے معاشرے کو انتہاپسندی سے پاک کرنا ہے، جو کالعدم تنظیمیں ہیں ان سے متعلق یکم جنوری کو فیصلہ ہوگیا تھا لیکن مالیاتی مسائل تھے، جس کے بعد فروری میں اس کا دوبارہ اعلان کیا گیا اور فنڈز بھی جاری کیا۔

میجر جنرل آصف غفور کا کہنا تھا کہ ان تنظیموں کا ہسپتال، مدرسے اور فلاحی کاموں کو حکومت نے اپنے زیر اثر لینے کا فیصلہ کیا، پاکستان کا تعلیمی نظام یہ ہے کہ ہمارا نمبر دنیا میں 129 پر ہے اور ڈھائی کروڑ بچے اسکول سے باہر ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں 30 ہزار سے زائد مدرسے ہیں جس میں ڈھائی کروڑ بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں، جس میں 70 فیصد ایسے مدرسے ہیں جہاں ایک ہزار ماہانہ خرچ ہوتا ہے جبکہ 25 فیصد ایسے ہیں جس میں تھوڑا زیادہ خرچ ہوتا ہے اور 5 فیصد مدرسوں کا انفرااسٹرکچر زیادہ اچھا ہے جہاں 15 سے 20 ہزار روپے ماہانہ خرچ کیے جاتے ہیں۔

پاک فوج کے ترجمان کا کہنا تھا کہ اب یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ ان مدرسوں کو قومی دھارے میں لایا جائے گا اور حکومت نے ان تمام مدرسوں کو وزارت تعلیم میں لانے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ تمام علما کرام اس بات سے متفق ہیں کہ انہیں قومی دھارے میں لایا جائے اور ایسا نصاب بنایا جائے گا جس میں منافرت کی کوئی چیز نہیں ہوگی۔

پراکسیز کے حوالے سے بات چیت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اس میں اپنا اہم کردار ادا کر رہا ہے، ہمارا دفتر خارجہ بہت اہم کردار ادا کر رہا ہے، ہم نے پاکستان میں وہ ماحول دینا ہے جس سے سوشل اکنامک سرگرمیاں ہوں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں