13

پاک فوج کے وہ کون سے قوانین ہیں جنہیں لیک کرنا غداری تصویر کیا جاتا ہے؟ جانیں اس خبرمیں

سپریم کورٹ آف پاکستان نے کہا ہے کہ آرمی ریگولیشنز پرمہرلگی ہے کہ یہ ریسٹرکٹڈ ہیں، یہ دستاویز پریس یا کسی غیرمتعلقہ شخص کونہیں دی جاسکتی، جبکہ یہ استثنا صرف دفاعی قوتوں، دفاعی تنصیبات اور قومی سیکیورٹی کے ریکارڈ کوحاصل ہے، یہ پابندی آرمی قوانین سے متعلق نہیں ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق سپریم کورٹ آف پاکستان نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق تفصیلی تحریری فیصلہ جاری کردیا ہے۔ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق تفصیلی فیصلہ 39 صفحات پرمشتمل ہے۔ تحریری فیصلہ جسٹس منصورعلی شاہ نےتحریرکیا ہے۔ تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ ہمارے سامنے مقدمہ تھا کہ کیا آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کی جاسکتی ہے۔ آرمی چیف کی تقرری، ریٹائرمنٹ اورتوسیع کی تاریخ موجود ہے۔ قانون کے تحت جنرل کے رینک کیلئے ریٹائرمنٹ کی عمر یا مدت ملازمت نہیں دی گئی۔ پہلی باریہ معاملہ اعلیٰ عدلیہ میں آیا۔ سماعت کے پہلے روز درخواست گزارعدالت میں پیش نہیں ہوا۔درخواست گزار اگلی سماعت میں عدالت میں حاضر ہوا۔ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں 3 سال کی توسیع دی گئی۔ آرمی چیف کا عہدہ لامحدود اختیار اور حیثیت کا حامل ہوتا ہے۔ فیصلے میں کہا گیا کہ اگر فوج اپنے ریگولیشنز آرمی ایکٹ سے اختیارات نہیں لیتیں تو قانون سے ماورا ہونگی۔ آرمی ایکٹ کے اصولوں کی روشنی میں آرمی ریگولیشنز کا جائزہ لینا ہوگا۔ اب حکومت کی ذمہ داری ہے مناسب قانون سازی سے ریگولیشنز میں سے ان نقائص کو نکالے۔ تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ آرمی ریگولیشنز پر مہر لگی ہے کہ یہ ریسٹرکٹڈ ہیں۔ آرمی ریگولیشنز پرلکھا ہے یہ دستاویز پریس یا کسی غیرمتعلقہ شخص کونہیں دی جاسکتی۔ پارلیمنٹ کے قانون اور ماتحت قوانین عوامی دستاویزات ہیں۔ صرف دفاعی قوتوں، دفاعی تنصیبات اور قومی سیکیورٹی کے ریکارڈ سے متعلق دستاویزات نہ ظاہر کرنے کی استثنا حاصل ہے۔ جبکہ یہ پابندی آرمی قوانین سے متعلق نہیں ہے۔ یہ بات اہم ہے کہ جہاں معلومات ہوگی اور بحث ہوگی وہیں حل نکلیں گے۔ اگر آرمی ریگولیشنز تک عوام کو پہلے ہی رسائی حاصل ہوتی تو حل پہلے نکل آتا۔ اس لیے ہر قانون سازی متعلق معاملات تک عوام کی رسائی ہونی چاہیے۔ آرمی ایکٹ 1952 آئین کی شق 243 کلاز 3 کے مطابق فوج کے بنیادی ڈھانچے کی ترویج پر ناکافی ہیں۔ یہ قانون فوج میں کمیشن دینے، آرمی سروس کے قواعد وضوابط فراہم نہیں کرتا۔ آرمی ایکٹ کمیشنڈ افسران کی مدت ملازمت اور توسیع پر ضروری معلومات نہیں دیتا۔ تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ اسی طرح سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنے اضافی نوٹ میں لکھا کہ قانون سازی نہ ہونے پرآرمی چیف کو ریٹائرڈ ہونا پڑے گا، پارلیمنٹ کی آرمی چیف کےعہدے سے متعلق قانون سازی غلطیوں کی تصحیح میں مددگارہوگی، معاملہ قانون سازوں کے بنائے گئے قانون کے تحت ریگولیٹ کیا جانا چاہیے۔ آرمی چیف کے عہدے کا اہم پہلو کسی قانون کے دائرے میں نہ آنا آئین کی بنیادی روح کے منافی ہے۔ چھ ماہ میں قانون نہ بناتوآرمی چیف ریٹائرہوجائیں گے۔ اگر6 ماہ تک پارلیمنٹ میں قانون نہ بن سکا تو صدر نیا آرمی چیف مقرر کریں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں