پیسوں کی ضرورت ہے، سعودی عرب کی دعوت ٹھکرا نہیں سکتے تھے، عمران
وزیر اعظم عمران خان نے سعودی صحافی جمال خاشقجی کی ہلاکت پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ سعودی صحافی کے قتل کے باوجود پاکستان کو درپیش معاشی بحران کے پیش نظر ہم سعودی عرب سے اچھے تعلقات جاری رکھنا چاہتا ہیں۔
سعودی عرب کی معاشی پالیسیوں اور تنقید کے لیے مشہور سعودی صحافی جمال خاشقجی اپنی طلاق کی دستاویزات کو حتمی شکل دینے کے لیے ترکی میں موجود سعودی سفارتخانے گئے لیکن اس کے بعد سے لاپتہ ہو گئے۔
مزید پڑھیں: جمال خاشقجی کا قتل: محمد بن سلمان کی بادشاہت خطرے میں پڑگئی؟
ان کی گمشدگی کے بعد اطلاعات سامنے آئی تھیں کہ خاشقجی کو سعودی سفارتخانے کے اندر ہی قتل کردیا گیا ہے لیکن سعودی عرب کی جانب سے مستقل اس بات کی تردید کی جاتی رہی۔
تاہم 2 ہفتوں تک شدید عالمی بحرانی صورت حال کا سامنا کرنے کے بعد بالآخر 20 اکتوبر کو سعودی عرب نے اعتراف کیا تھا کہ صحافی جمال خاشقجی کو استنبول میں قائم سعودی قونصل خانے کے اندر جھگڑے کے دوران قتل کردیا گیا تھا۔
وزیر اعظم عمران خان نے سعودی عرب روانگی سے قبل غیرملکی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ جمال خاشقجی کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کا سعودی حکومت کو جواب دینا ہو گا، ہم اس سلسلے میں سعودی عرب کی وضاحت کے منتظر ہیں اور امید ہے کہ وہ اپنی وضاحت سے لوگوں کو مطمئن کرنے میں کامیاب رہیں گے اور واقعے کے ذمے داران کو سزا ہو گی لیکن جو کچھ ہوا وہ بہت ہی افسوسناک اور انسانیت سوز ہے۔
واضح رہے کہ وزیراعظم عمران خان، سعودی فرمان روا شاہ سلمان کی خصوصی دعوت پر سرمایہ کاری کے حوالے سے ہونے والی کانفرنس میں شرکت کے لیے ریاض پہنچ چکے ہیں۔
جمال خاشقجی کی ترکی کے شہر استنبول میں قونصل خانے کے اندر ہلاکت کے ردعمل میں انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ اور امریکی نمائندوں سمیت کئی ممالک نے کانفرنس کا بائیکاٹ کا اعلان کردیا ہے لیکن ‘ڈیووس ان ڈیزرٹ’ کے عنوان سے ریاض میں ہونے والی کانفرنس میں اب بھی کئی سرکردہ کاروباری شخصیات، سرمایہ کار، صنعت اور میڈیا اداروں کے نمائندے شرکت کریں گے۔
سعودی عرب میں ہونے والی کانفرنس میں شرکت پر انسانی حقوق کی تنظیموں نے عمران خان اور ان کی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور ان کا موقف ہے کہ سعودی صحافی کے قتل کے خلاف پاکستان کو بھی عالمی برادری کی پیروی کرتے ہوئے اس کانفرنس کا بائیکاٹ کرنا چاہیے تھا۔
تاہم وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ خاشقجی کے قتل کے باوجود سعودی عرب کو نظر انداز نہیں کر سکتے اور پاکستان، سعودی عرب سے اچھے تعلقات جاری رکھنا چاہتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملک اس وقت شدید بحرانی صورتحال سے دوچار ہے اور ہمیں تاریخ کے بدترین قرضوں کا سامنا ہے لہٰذا ایسی صورت میں ہم اپنے پرانے دوست سعودی عرب کی جانب سے دی گئی دعوت کو ٹھکرا نہیں سکتے تھے۔
عمران خان نے کہا کہ میں نے کانفرنس میں شرکت کا فیصلہ اس لیے کیا کیونکہ میں اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہوں، 21کروڑ لوگوں کے ملک کو تاریخ کے بدترین قرضوں کا سامنا ہے اور ہمیں اس وقت پیسوں کی شدید ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جب تک ہم اپنے دوست ملکوں سے قرض نہیں لیں گے، اس وقت تک ہمارے پاس قرضوں اور درآمدات کی ادائیگی کے لیے غیرملکی زرمبادلہ نہیں ہو گا لہٰذا جب تک ہمیں غیرملکی قرضہ یا سرمایہ کاری نہیں ملے گی، اس وقت تک ہمارے لیے مسائل ہی مسائل ہیں۔
25اگست کو عام انتخابات میں کامیابی کے ذریعے اقتدار میں آنے والی تحریک انصاف کی حکومت نے ملک کے موجودہ معاشی بحران سے نمٹنے کے لیے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ(آئی ایم ایف) کے پاس جانے کا اعلان کیا تھا تاکہ معاشی استحکام کے لیے عالمی ادارے سے 8 سے 12ارب ڈالر کا فنڈ حاصل کیا جا سکے۔
عمران خان کی حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف جانے کے اعلان کے بعد ملکی روپے کی قدر میں مزید کمی دیکھنے کو ملی اور ڈالر ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح 136روپے تک پہنچ گیا جہاں ایک دن قبل اس کی مالیت 124رروپے تھی۔
تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ چین اور آئی ایم ایف بیل آؤٹ پیکیج پاکستان کے لیے ناگزیر ہوچکا ہے کیونکہ پاکستان کے زرِمبادلہ کے ذخائر مسلسل تنزلی کا شکار ہیں اور کرنٹ اکاؤنٹ حسارہ بھی بڑھ رہا جبکہ اسٹیٹ بینک کو روپے کی قدر میں کمی کرنا پڑی۔
گزشتہ کئی ہفتوں سے ماہر معاشیات خبردار کر رہے تھے کہ موجودہ خراب صورتحال اور کرنٹ اکاؤنٹ کے بحران کے پیش نظر ملکی روپے کی قدر میں کمی واقع ہو گی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ملک پر چڑھے کھربوں روپے کے قرض کی ادائیگی اور درآمدات کی خریداری کی صلاحیت بھی بری طرح متاثر ہوگی۔