17

چینی برآمد کرنے کی اجازت وزیراعظم عمران خان نے دی تھی۔۔۔حیرت انگیز انکشافات نے ہلچل مچا دی

چینی اور گندم بحران کی انکوائری رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد سے سیاسی منظرنامے میں ہلچل کا سلسلہ بدستور جاری ہے اور وفاقی کابینہ کو بتایا گیا کہ وزیر اعظم عمران خان نے گنے کے کاشتکاروں کی مدد کے لیے اس شرط کے ساتھ رواں سال کے دوران زائد چینی برآمد کی اجازت دی تھی کہ ملک میں اجناس کی کمی نہیں ہوگی . نجی اخبار ڈان کی رپورٹ کے مطابق وزیر اعظم

کی معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس میں بتایا کہ وزیر اعظم عمران خان نے کابینہ کو آگاہ کیا کہ ان کی ہدایت پر حالیہ شوگر اور گندم کے بحران کی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹس جاری کی گئیں جبکہ انہوں نے گنے کے کاشتکاروں کی مدد کے لیے رواں مالی سال چینی برآمد کرنے کی اجازت دی .حکومت کا دعویٰ ہے کہ گندم اور چینی بحران کی انکوائری رپورٹ عوامی سطح پر پیش کرنا وزیراعظم کے سیاسی وابستگی سے قطع نظر قیمتیں بڑھانے والوں کو قرار واقعی سزا دینے کے فیصلے کی نشاندہی کرتی ہے.تاہم قیمتوں میں اضافے اور اس کے بعد ہونے والے بحران کے مجرم کون ہیں اس حوالے سے ابھی بھی بہت کچھ واضح ہونا باقی ہے اور اسی لے کیے وزیر اعظم نے معاملے کی انکوائری کا حکم دیا تھا.واضح رہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما جہانگیر ترین اور خسرو بختیار کا نام چینی کی برآمد پر

دی جانے والی سبسڈی کے فائدہ اٹھانے والوں کے طور پر نامزد کیا گیا تاہم یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ اصل غلطیوں پہلے شوگر کی برآمد کی دینا اور پھر سبسڈی دینا کا ذمہ دار کس کو ٹھہرایا جائے گا.معاون خصوصی کی جانب سے یہ تسلیم کیا گیا کہ وفاقی کابینہ نے چینی کی برآمد کی منظوری دی تھی، حکومت پنجاب نے چینی پر دی جانے والی سبسڈی کی منظوری دی تھی. فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ وفاقی کابینہ کے اجلاس کو آگاہ کیا گیا کہ اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) کے اجلاس میں بتایا گیا تھا کہ اس سال ملک میں 20 لاکھ ٹن زائد چینی ہے اور اسی وجہ سے شوگر ملز مالکان کاشتکاروں سے گنے کی خریداری سے گریزاں تھے.

انہوں نے مزید کہا کہ گنے کے کاشتکاروں کی پریشانی کو مدنظر رکھتے ہوئے وزیر اعظم نے زائد چینی کی برآمد کی اجازت دی، اس شرط کے ساتھ کہ مقامی ضرورت کی صورت میں چینی برآمد نہیں کی جاسکتی.واضح رہے کہ ملک میں چینی اور گندم کے حالیہ بحران سے متعلق دو رپورٹس منظر عام پر آئیں جس میں حکمراں جماعت پی ٹی آئی کے اہم رکن جہانگیر ترین اور اتحادی جماعتوں کے رہنماو¿ں وفاقی وزیر برائے خوراک برائے تحفظ خسرو بختیار، پاکستان مسلم لیگ (ق) کے مونس الٰہی اور ان کے رشتہ داروں کے نام سامنے آئے جنہوں نے چینی کی برآمد میں

غیر مناسب فائدہ اٹھایا.دوسری جانب وزیر اعظم عمران خان نے شوگر بحران سمیت (انکوائری کمیشن کے ممبروں) کو دھمکیاں دینے والے افراد کو متنبہ کیا کہ اگر وہ دھمکیاں دینے سے باز نہیں آتے ہیں تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے.تاہم یہ واضح نہیں کہ آیا وزیر اعظم نے دھمکیوں کا نشانہ بنانے والوں کے خلاف قانون کو اپنا راستہ اختیار کرنے کا حکم دیا تھا یا نہیں.ادھر اس رپورٹ کے بعد جہانگیر ترین کو پارٹی کی ٹاسک فورس کے دفتر سے ہٹادیا گیا تھا، جس کے بعد وزیراعظم کے مشیر تجارت رزاق داو¿د کے خلاف کارروائی کی گئی اور ان سے صنعت و پیدار کے مشیر کا اضافی چارج لے لیا.خیال رہے کہ اس سے قبل جہانگیر ترین ایسی کسی ٹاسک فورس کا سربراہ بننے سے انکار کرتے رہے ہیں.علاوہ ازیں وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب مراز شہزاد اکبر نے

بتایا کہ چینی کے بحران سے متعلق انکوائری رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ شوگر کارٹیل نے خود ہی چینی کی درآمدی قیمت مقرر کی جو بین الاقوامی مارکیٹ کی قیمت سے ہمیشہ زیادہ رہتی ہے.انہوں نے کہا کہ کمیٹی نے سفارش کی ہے کہ اب حکومت چینی کی قیمت خود طے کرے.

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں