9

کلاسیکل موسیقی کی شام ۔۔خوشامد کی حدیں۔۔ ایک نام نہاد صحافی

کلاسیکل موسیقی کی شام ۔۔خوشامد کی حدیں۔۔ ایک نام نہاد صحافی
عمران خان شہرت کی بلندیوں پر پہنچ چکے دنیا کی کوئی طاقت انہیں ہرا نہیں سکتی،خاص صحافی
اللہ ایسے رزق ، دوروں اور شہرت اور یو ٹرن سے بچائے جس سے ضمیر ہی بے ضمیر ہو جائے
پاکستان میں ترکی کے سفیر نے اپنے سفارت خانے میں معروف کلاسیکل سنگر استاد شفقت سلامت علی خان کے ساتھ ایک خوبصورت کلاسیکل شام کا اہتمام کیا ۔ اس خوبصورت شام میں استاد شفقت سلامت علی خان نے اپنی ٹھمری ، بہروی، پہاڑی جبکہ چار کلیان کے ساتھ کلاسیکل موسیقی سے ہال میں موجود وفاقی وزیر اطلاعات چوہدری فواد حسین ،سنیٹر طلحہ محمود، میئر اسلام آباد شیخ انصر عزیز، بھارت ، بوسنیاسمیت کئی ممالک کے سفیروں نے بہت بڑی تعداد میں شرکاہ جس میں نہ صرف پاکستانیوں بلکہ وہاں پر موجود غیرملکی سفارت کاروں کے بھی دل موہ لیئے ، شام موسیقی کے بعد ایک خوبصورت عشائیہ کا بھی اہتمام کیا گیا تھا
عشائیہ میں عموما شرکاہ کے درمیان خوشگوار ماحول میں بات چیت ہوتی ہے ۔ گزشتہ شب کا ایک واقعہ ویسے تو کسی کے لئے حیران کن نہیں تھا لیکن دلچسپی سے خالی نہیں تھا پاکستان کے کے ایک نامور ایک خاص کام کے لئے مشہور صحافی جو حکومت میں ہوں تو شریف خاندان کے لئے اتنا کچھ لکھ دیتے ہیں کہ میاں صاحب اور انکی صاحبزادی سمیت پورا خاندان ولی اللہ لگتا ہے جبکہ پورا خاندان والے بھی پریشان ہو جاتے ہیں لیکن جب ان کا دور نا ہو تو وہ انکے بستروں کو خاص طور پر جنسی استعمال کے بیڈ قرار دے دیتے ہیں اور انکی وجہ شہرت بھی شاید یہی ہے کہ جس کی وجہ سے انہوں نے ایک خاص عزت اور شہرت بھی کمائی ہے


وفاقی وزیر چوہدری فواد حسین جو کھانا کھانے کے بعد سویٹ ڈش اور خاص طور پرترکش ڈیلائٹ سے محظوظ ہو رہے تھے کہ انکے پاس وہ صحافی تشریف لائے اور بتایا کہ چوہدری صاحب عمران خان اس وقت شہرت کی بہت بلندیوں پرہیں پاکستان سمیت پوری دنیا میں اس وقت صرف انہی کا طوطی بول رہا ہے اور خاص طور پر جو حال ہی میں سروے آیا ہے اس میں مجھے لگ رہا ہے کہ سروے کرنے والوں کو بہت بڑی غلطی لگ گئی ہے اور سروے والوں نے عمران خان کی اس وقت کی شہرت کو 57فیصد قرار دیا ہے جبکہ مجھے لگ رہا ہے کہ انہیں بہت بڑی غلطی لگی ہے یہ شہرت حقیقت میں 57نہیں جبکہ 75فیصد ہے اور اگر آپ کہیں تو مجھے بتائیں کہ مجھے سروے کروانے والوں کو بہت تجربہ ہے ، محترم صحافی کا کہنا تھا کہ یہ پانچ پہلے نہیں بلکہ بعد میں لگنا تھا ، اور کچھ خوشامدی باتیں ایسی ہیں جوراقم یہاں لکھ نہیں سکتا بلکہ جب اتنی زیادہ خوشامد سے بھی وہ وفاقی وزیر کی لذیز ترکش ڈلائٹ سے توجہ نہ ہٹا سکے تو انہوں نے کہا وزیر صاھب میرا پیغام دے دینا جس پر راقم نے کہا کہ صاحب جی انکو یا اپنے آپ پر یا آپ کے باتوں پر یقین نہیں آ رہا اس دوران وہاں پر موجود ایک اور صحافی جو2004میں ایک اخبار سے مجھے سازش کر کے نکلوا چکے تھے نے بھی میری ہاں میں ہاں ملائی اور یہاں تک کہا کہ حضور آپ کا تو کام ہی یہی ہے کہ آپ ہر آنے والی حکومت کے بارے مین اسی قسم کے کلمات کہتے ہیں اور جانے والوں کے خلاف بھی ایسے ہی شہرت رکھتے ہیں جس کے بعد موصوف اپنا سا منہ لے کر ایکطرف چلے گئے اور وفاقی وزیر نے بھی اسی میں عافیت سمجھی۔

ویسے تو خوشامد کرنا یا فوائد لینا ہر کسی کا ذاتی فعل ہے لیکن جس قسم کی صورتحال گزشتہ شب میں نے دیکھی وہ میری تھوڑی سی صحافتی زندگی میں ایک انجام سے کم نہیں تھی حکومتیں آتی رہتی ہیں اور آج کے حکومت کل کی اپوزیشن اور کل کی اپوزیشن حکومتوں میں آتے کافی دیکھ چکے ہیں لیکن وقت کے ساتھ کوئی اور نہیں اگر صحافی گرگٹ کی طرح اپنے روپ بدلیں تو ان سینئر سے ہمیں کیا سیکھنے کو ملے جو ہر دورے میں اور ہر پریس کانفرنس اور تو اور پارلیمنٹ ہاوس میں بھی ہر سیٹ کو اپنی ہی سیٹ سمجھیں اور جونیئر ز کو حقیرت کی نگاہ سے دیکھیں اور جب مرضی کی خوشامد کے بعد مرضی کی حکومت آئے اور پھر کچے کانوں والے حکمرانوں کے کان بھریں کہ فلاں آپ کے بارے میں یہ کہہ رہا تھا۔۔ موصوف کے عمران خان کے بارے میں ماضی میں اور خاص طور پر دھرنوں کے دوران دیئے گئے کلمات اور ریمارکس کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں لیکن گزشتہ شب عمران خان کے بارے میں نوے ڈگری سے لیئے جانے والے یو ٹرن سے کافی مایوسی ہوئی ہے اللہ ایسے رزق اور عہدوں سے بچائے جس سے ضمیر ہی بے ضمیر ہو جائے
کالم

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں