8

27فروری ،27ستمبر کے بعد 27اکتوبر۔۔۔ ہری سنگھ اور مولانا فضل الرحمان کا انتخاب 27اکتوبر ہی کیوں

27فروری ،27ستمبر کے بعد 27اکتوبر۔۔۔
ہری سنگھ اور مولانا فضل الرحمان کا انتخاب 27اکتوبر ہی کیوں
27اکتوبر 1947کے دن مہاراجہ ہری سنگھ نے بھارت کے ساتھ الحاق کا یک طرفہ فیصلہ کیا تھا
اس سے قبل جمعیت علمائے ہند کی جانب سے مودی کے پانچ اگست کے اقدام کو درست قرار دیا گیا تھا
مولانا فضل الرحمان کا جب مسئلہ کشمیر دنیا بھر میں اجاگر ہو رہا تھا اسلام آباد چڑھائی کا اعلان بھی سوالیہ نشان ہے
یاد رہے کہ دیوبندی مکتبہ فکر سے تعلق والی جمعیت علمائے ہند اور جمعیت علمائے اسلام پاکستان بننے کی مخالف جماعتیں تھیں
پانچ اگست کو بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کے عوام کی دی گئی رعائت پر مبنی آرٹیکل 370اور 35اے کا خاتمہ کر کے اپنے غاصبانہ قبضے کو اگلے مرحلہ طے کیا جس کے بعد کشمیر میں اس رو ز سے بھی پہلے سے کشمیر کے ان علاقوں جہاں پر مسلمانوں کی اکثریت ہے پر کرفیو کے ساتھ ساتھ لاک ڈاون جاری ہے اور ان 64دنوں میں چونسٹھ ہزار کے قریب کشمیریو ں جن میں بچے بوڑھے خواتین اور حریت قیادت کے ساتھ ساتھ بھارتی حمایت کرنے والے سیاست دان جب میں بھارت نواز محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ جیسے سیاستدان شامل ہیں کو بھی قید کر رکھا ہے
پانچ اگست کے اس اقدام کے بعد پاکستان نے پوری دنیا میں بھارت کے اس اقدام اور نام نہاد جمہوریت کا دھنڈورا پیٹنے والے ہندوستان کا اصل چہرہ دنیا کو دکھانے کے لئے دن رات ایک کر دیا دفتر خارجہ سمیت پوری حکومتی مشینری نے دن رات کام کیا اورپھر 27 ستمبر کو وزیر اعظم نے ایک تاریخی تقریر کر کے بھارت کو کھلا للکارا جس کے بعد دنیا نے کشمیر کو اہمیت دینا شروع کر دی چین ترکی اور ملائشیا کے سربراہوں نے اپنی تقریروں میں بھارت کو کشمیر میں جہاں ظلم وستم بند کرنے کرفیو کے خاتمے کے لئے کہا
ایک ایسے موقع پر جب پوری دنیا میں مسئلہ کشمیر اجاگر ہو رہا تھا پاکستان کی دیوبندی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والی اپوزیشن جماعت جمعیت علمائے اسلام جو پاکستان بننے کی مخالف جماعت بھی ہے کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے ایک ایسے دن جس دن یعنی 27اکتوبر 1947میں کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ نے جموں و کشمیر کا بھارت سے الحاق کا اعلان کر دیا جس کے بعد کشمیریوں نے اس غیر قانونی اقدام کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کا فیصلہ کیا اور پھر پاکستانیوں اور خاص طور پر قبائیلیوں نے کشمیر کی آزادی کی جنگ لڑنا شروع کر دی اور جب ایک وسیع علاقہ پر قبضہ کر لیا تو اس وقت کے حاکم جواہر لال نہرو جنگ بندی کے لیے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی پہنچ گئے اور جنگ بندی کے ساتھ کشمیر میں استصواب رائے کا وعدہ کیا کہ اب اس کا فیصلہ کشمیری کرینگے کہ انہوں نے پاکستان کے ساتھ رہنا ہے یا بھارت کے ساتھ اس دن سے آ ج تک اقوام متحدہ کی گیارہ قراردادیں اس دن کا انتظار کر رہی ہیں جب وہ کشمیر میں رائے شماری کروائیں لیکن اس بات کی سمجھ نہیں ا رہی کہ مولانا جو کشمیر کمیٹی کے کئی سال تک چیئرمین بھی رہے ہیں اور ان کی جماعت کا ان قبائلی علاقوں میں کافی اثر و رسوخ رہا ہے جنہوں نے 27اکتوبر کے مہاراجہ ہری سنگھ کے فیصلے کے خلاف علم بغاوت بلند کیا تھا اس روز کا انتخاب سمجھ سے بالا تر ہے اور اب صورتحال یہ ہے کہ پینسٹھ دنوں سے جس کشمیر کے باسی ظلم و ستم کے خلاف ایک بڑی جیل میں قید ہیں اور رہائی کا انتظار کر رہے ہیں اسی روز مولانا فضل الرحمان کی طرف سے اسلام آباد چڑھائی کا اعلان کر کے اپنی سیاست کو بھی داو پر لگا بیٹھے ہیں اور اس جمعیت علمائے ہند جس کی وہ پاکستان
کی شاخ ہیں پر بھی شکوک و شبہات پید ا کروا رہے ہیں کیونکہ جمعیت علمائے ہند نے موودی سرکار کے پینتیس اے اور تین سو ستر کے خاتمے کو جائز قرار دیا تو جمعیت علماے اسلام نے اسوقت جب مسئلہ کشمیر پوری دنیا میں اجاگر کرنے کی ضرورت تھی اسی روز اسلام آباد چڑھائی کا اعلان کر کے اس خبر کی بھی تصدیق کر دی کہ موودی کا کون یار ہے اور کون بھارت کے کہنے پر مسئلہ کشمیر کو پس پشت ڈلوانے اور توجہ ہٹانے کی کوشش کر رہا ہے اس حوالے سے کوئی شک نہیں کہ مولانا اسلام آباد پر چڑھائی تو نہیں کر سکیں گے اور نہ ہی داخل ہو سکیں گے لیکن 27اکتوبر کے روز کا انتخاب کر کے اورعین اس وقت جب کشمیر کا مسئلہ دنیا کی توجہ کا مرکز بن رہا تھا اس وقت کا انتخاب کر کے بہت سارے سوال بھی چھوڑ دیئے ہیں
کالم

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں