7

پی سی بی میں کون کون کتنے لاکھ روپے تنخواہ لے رہاہے؟ حقائق سامنے آگئے

سابق چیئرمین پی سی بی خالد محمود نے کرکٹ بورڈ میں ٹیم مینجمنٹ اور ملازمین کو لاکھوں روپے ماہانہ تنخواہیں دینے کی مخالفت کر دی۔ایل سی سی اے گرأنڈ میں ایک انٹر ویو سابق چیئرمین پی سی بی خالد محمود کا کہنا تھا کہ

پاکستان کرکٹ بورڈ اپنے ملازمین کو جتنی
تنخواہیں دے رہا ہے، وہ تشویشناک بات ہے، ہمارے ملک کے معاشی ماحول میں ملازمین کی اتنی تنخواہیں نہیں ہونی چاہیے، کرکٹ بورڈ میں کوئی 10 لاکھ تنخواہ لے رہا ہے ، کسی کا معاوضہ 15لاکھ روپے ہے، بورڈ کے چیف ایگزیکٹو کی تنخواہ 20 سے 25 لاکھ روپے سن رہا ہوں، یہ سارا پیسہ کرکٹرز کا ہے جو انہیں پر ہی خرچ ہونا چاہیے، اگر کرکٹرز کو اچھے معاوضے نہیں ملیں گے تو کھلاڑیوں کی کارکردگی پر منفی اثر پڑےگا جسکا نقصان کھیل کو ہی ہوگا۔ خالد محمود نے کہا کہ 70 کی دہائی میں پی سی بی کا مختصر کا عملہ تھا، عبدالحفیظ کاردار کےساتھ میں سیکرٹری تھا لیکن ہماری کوئی تنخواہ نہ ہوتی تھی، ایک اسسٹنٹ سیکرٹری کی بھی بہت تھوڑی سی تنخواہ تھی، بہت اچھا کرکٹ بورڈ چل

رہا تھا، 70 اور 80 کی دہائی میں قومی ٹیموں کی
کارکردگی بھی بڑی شاندار تھیں، انٹرنیشنل ٹیمیں بھی پاکستان میں آکر کھیلتی تھیں، بعد میں ہم ماڈرن ازم کا شکار ہوئے اورتنخواہیں بڑھانےکا سلسلہ شروع ہوا۔ سابق چیئرمین پی سی بی نے کہا کہ کرکٹ بورڈ میں ڈأن سائزنگ کئے جانےکی ضرورت ہے، سٹاف کم کر کے انکے معاوضے بھی معقول ہونے چاہیے۔ ایک سوال پر خالد محمود نے کہا کہ کلب کرکٹ کا اپنا کردار ہے، ہاکی میں ہم کبھی عالمی چیمپئن تھے، دنیا کا ہر ٹائٹل ہمارے پاس تھا، اب وہ ہاکی کدھر گئی، بڑی وجہ یہی ہے کہ ہاکی کی نرسریاں ختم کر دی گئیں، گوجرہ ، فیصل آباد اور لاہور کے کلب ختم کر دیئے گئے، جس دن کرکٹ کےساتھ بھی یہ معاملہ ہو گیا، کرکٹ کا حشر ہاکی سے بھی بدتر ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے کرکٹ بورڈ کے ایسے
سربراہ بنتے رہے جن کا اس کھیل سے کوئی تعلق نہ تھا،انہیں کلبوں کی اہمیت کا اندازہ ہی نہ تھا ، اسلئے کلب کرکٹ نظر انداز ہوتی رہی،محکمے ختم ہونے سے کرکٹرز بےروزگار ہو گئے ہیں،کھلاڑی بڑے بددل ہیں، یہ صورتحال چلتی رہے تو اچھے کھلاڑی ناپید ہو جائیں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں