11

فیصلہ انصاف کا قتل جگ ہنسائی ،شریعت کی خلاف ورزی

فیصلہ انصاف کا قتل جگ ہنسائی ،شریعت کی خلاف ورزی
سوات کے چوک اور کابل میں قبر سے لاشیں نکال کر لٹکانے اور اس فیصلہ میں کتنا فرق ہے
وکیلوں نے ہسپتال پر حملہ کر کے مریضوں کی آکسیجن تک اتار کر جو عزت کمائی وہ پیرہ 66نے پوری کر دی
بھٹو، لال مسجد، نواز شریف کی سزا اور ضمانت جیسے فیصلوں کے بعد رہی سہی کسر اس پیرے اور فیصلے نے پوری کر دی
پہلے نہیں لیکن اب لال مسجد ہو یا اکبر بگتی کا قتل سابق صد جنرل مشرف کو ہمدردیاں سمیٹنے کا موقع ملک گیا ہے کہتے ہیں کہ ایک گاوں میں دوفریقوں میں لڑائی ہوتی ہے ایک فریق کا بندہ قتل ہو جاتا ہے تو پورا گاوں قاتل کا گھر جلانے کو دوڑتا ہے ایسے میں کچھ عقل مندوں کی بدولت لوگ اس قاتل کو پکڑ کر پولیس کے حوالے کر دیتے ہیں اور مجمع کو کچھ سکوں ملتا ہے جو قاتل کو مارنے اور اسکے گھر کو جلانے کا درپے تھا پھر کیس عدالت میں چلتا ہے تو اس قاتل کو ان لوگوں کی شہادتوں کے باعث سزائے موت سنا دی جاتی ہے ایسے میں وہ لوگ جو قاتل کو مارنا اور اسکا گھر تک جلانے کو تیار تھے اور جو لوگ شہادتیں دے کر پھانسی کی سزا دلوا چکے تھے انہیں میں سے کچھ لوگ مقتول کے گھر پہنچ جاتے ہیں اور پھر مقتول کے گھر والوں سے کہتے ہیں کہ آپ کا بندہ تو مر گیا اپ مہربانی فرما کر قاتل کو معاف کر دیں ورثا معاف نہیں کرتے قصہ مختصر اس قاتل کوپھانسی ہو جاتی ہے تو وہ سب لوگ جو اس وقت اسے مارنے کے درپے تھے وہ نہ صرف جنازے میں شریک ہوتے ہیں بلکہ مقتول کے وارثوں کو ہی برا بھلا کہہ رہے ہوتے ہیں کہ آپ لوگوں نے معاف نہ کر کے اچھا نہیں کہا ایسا ہی ہمارے ہاں ہوتا ہے پہلے بھٹو کی پھانسی پر مٹھائیاں تقسیم ہوتی ہیں اس قلم کو چومہ جاتا ہے جس سے بھٹو کی پھانسی کی سزا لکھی جاتی ہے اور پھر وقت آتا ہے کہ وہی قاتل لیگ پیپلز پارٹی کے ساتھ ملک کر حکومت بناتی ہے ، پھر تمام لوگ لال مسجد پر حکومت کو آپریشن پر اکساتے ہیں پھر جب آپریشن ہوتا ہے تو سب لوگ انہی کے ساتھ ہو جاتے ہیں جنہیں وہ دہشت گرد کہا کرتے تھے ، جب تک نواز شریف کو سزا نہیں ہوئی تھی اسے چور چور کہا جاتا تھا اور پھر پلیٹ لیٹس کا ڈرامہ ہوا تو وزیر اعظم بھی آبدیدہ ہو جاتے ہیں ایسا ہی مشرف کے کیس میں ہوا کہ صرف ایک پیرہ چھاسٹھ نے مشرف کو ڈکٹیٹر سے معصوم بنا دیا اور اب ساری قوم اس کے ساتھ ہے اور اسکے عدلیہ کے فیصلے پر لے دے کر رہی ہے
کہتے ہیں عدالتیں نہیں بولتیں انکے فیصلے بولتے ہیںاور عدالتوں کے فیصلوںمیں اگر بغض حسد اور رعونیت کی بو آئے تو پھر وہ فیصلے اس ادارے کی بھی بدنامی کا باعث بنتے ہیں ماضی میں بھی چاہے ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی ہو یا نواز شریف کو پانامہ کی بجاے اقامہ میں سزا ، نوا ز شریف کی اسمبلی کی بحالی ہو یا 12اکتوبر 1999کے مارشل لا کو جائیز قرار دینا ، عمران خان کو اہل اور جہانگیر ترین کو نااہل قرار دینے کا فیصلہ ہو یا حنیف عباسی کو سزا کے بعد ضمانت، نواز شریف سمیت تمام سیاسی لوگوں کی اچانک ضمانت کے جمعہ بازار ہوں یا پھر دانیال طلال یا نہال کی سزائیں پاکستان کی عدلیہ کے متنازعہ فیصلوں سے ایک تاریخ بھری پڑی ہے لیکن اسلام آباد میں آئین شکنی پر خصوصی عدالت کے تفصیلی فیصلے کے پیرا نمبر 66 نے ساری دنیا میں پاکستان کو کہیں کا نہیں چھوڑا ۔خصوصی عدالت کا فیصلہ جہاں شرعی قوانین اور احکامات کی صریحا نفی کرتا ہے وہاں انصاف کا بھی قتل ہے۔ اس طرح یہ فیصلے 21 ویں صدی میں پتھر کے دور کی یاد تازہ کرتے ہیں جب بغض ، حسد اور رعونت کی بنیاد پر طاقت اور اختیار ملتے ہی مخالفین کی لاشوں کو قبروں سے نکال کر کئی دن تک صلیبوں پر لٹکایا جاتا تھا۔ حالیہ صدی میں اس کی مثال
سوات میں طالبان کی ہے جب کئی بزرگوں کی لاشوں کو قبروں سے نکال کر سوات کے چوکوں میں کئی دن تک لٹکایا گیا۔ کئی ججوں پر مشتمل بنچ میں جب ایک جج بھی اس طرح فیصلے میں بے ربط ، خلاف ضابطہ، خلاف آئین ، خلاف قانون کوئی تحریر لکھ دیتا ہے تو اس سے جہاں فیصلہ متنازعہ ہوتا ہے وہاں وہ آئین اور قانون سے متضاد قرار پاتا ہے اور پھر اس پیشہ سے تعلق رکھنے والے تمام لوگوں کے لئے بدنامی کا باعث بنتا ہے جیسے ویڈیو سکینڈل کے کردار سابق جج ارشد ملک کے کردار پر چیف جسٹس نے بجا طور پر کہا کہ ہزاروں ججوں کے سر شرمندگی سے جھک گئے ہیں اگر پرویز مشرف زندہ نہ رہیں تو ان کی لاش کو گھسیٹ کر 3 دن تک ڈی چوک میں لٹکانے کی بات سامنے آتے ہی ساری دنیا میں پاکستان کی بدنامی اور جگ ہنسائی ہوئی اور یہ تاثر ملا کہ یہ وہ ملک ہے جس میں اعلی عدلیہ کے جج ایسے احکام جاری کرتے ہیں جو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ، ان کے اپنے ملک کے آئین کی خلاف ورزی اور قانون کے علاوہ مہذب دنیا کے منہ پر ایک طمانچہ ہوتا ہے۔اب ساری دنیا خصوصا بھارت پاکستان پر چڑھ دوڑے گا کہ پاکستان کی عدالتوں کے کسی فیصلے کو بیرون ملک تسلیم نہ کیا جائے کیونکہ یہاں کے جج غیر مہذب ، انسانیت کے دشمن اور انصاف کے قاتل ہیں۔ یہ سیاہ دھبہ متعلقہ جج کو عبرتناک سزا دے کر ہی دھویا جا سکتا ہے۔جنگ کے دوران بھی لاش کی بے حرمتی شرعی طور پر قطعی منع اور حرام ہے ۔ اسلامی فقہ کے مطابق اگر کسی مردے کابازو یا ٹانگ توڑی جائے تو ایسا کرنے والے کو وہی سزا دی جائے گی جیسے اس نے کسی زندہ شخص کیساتھ ایسا کیا۔ لاش کی بے حرمتی زندہ انسان کے ساتھ بے حرمتی سے بدتر تعبیر کی گئی ہے
اداروں کی لڑائی میں اداروں کے ساتھ ساتھ پوری دنیا میں جگ ہنسائی ہو رہی ہے او سب ایک دوسرے کو نیچہ دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں ایسے میں ایک ارسطو کی ضرورت ہے جو سب کو ایک جگہ پھر بٹھائے اور عفو در گرز کا مشورہ دے کیونکہ اگر اب ایک دوسرے کو معاف یا در گرز نہیں کرینگے تو پھر بھارت کے ساتھ ایک جنگ بھی ہو سکتی ہے تاکہ پھر اس وقت ملک میں ایمرجنسی لگا دی جائے اور پھر اس ایمرجنسی میں عوام کے حقوق سلب ہوں اور پھر ان سلب حقوق میں ایک ادارہ دوسرے ادارے کو پھانسی دے کر بدلہ نہ لے اسوقت سے پہلے سب ہوش کے ناخن لیں اور لڑائی لڑائی معاف کریں اور اللہ کا گھر صاف کریں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں