8

حافظ سعید کو11سال قید کی سزا سنا دی گئی

پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور میں قائم انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے کالعدم تنظیم جماعت الدعو کے سربراہ حافظ سعید کو دو مقدمات میں مجموعی طور پر 11 برس قید کی سزا سنا دی ہے۔ حافظ سعید کے علاوہ ان کی تنظیم کے رہنما ظفر اقبال کو بھی دو مقدمات میں 11 برس قید کی سزا سنائی ہے۔
صحافی عباد الحق کے مطابق حافظ محمد سعید اور اُن کے ساتھی ظفر اقبال پر

دہشت گردی کے لیے رقم جمع کرنے یعنی غیر قانونی فنڈنگ کرنے اور کالعدم تنظیم کے رکن ہونے کے الزامات ثابت ہوئے ہیں۔ عدالت نے لاہور اور گوجرانوالہ میں درج مقدمات میں ملزمان کو الگ الگ ساڑھے پانچ برس قید کی سزا سنائی ہے جبکہ ان پر 15 ہزار روپے جرمانہ بھی عائد کیا گیا ہے۔ جج ارشد حسین بھٹہ نے حافظ سعید کو انسداد دہشت گردی کی دفعہ الیون ایف ٹو اور 11 این کے تحت سزا سنائی۔ قانونی ماہرین کے تحت انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ الیون ایف ٹو دہشت گردی کے لیے مالی معاونت اور الیون این کسی کالعدم تنظیم کے رکن ہونے کے بارے میں ہے۔ انسداد دہشت گردی کی عدالت نے حکم دیا کہ دونوں سزائوں پر عمل درآمد ایک ساتھ شروع ہو گا۔ قانونی ماہرین کے مطابق اس فیصلے کے خلاف قانونی داد رسی کے لیے مجرمان کے پاس اپیل کا حق ہے اور یہ اپیل متعلقہ ہائیکورٹ میں دائر کی جا سکتی ہے جس پر ہائیکورٹ کے ججوں پر مشتمل دو رکنی بنچ سماعت کرے گا۔ حافظ محمد سعید اور ظفر اقبال اس وقت گرفتار ہیں اور جوڈیشل ریمانڈ پر جیل میں ہیں اور انھیں فیصلے کے وقت انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش بھی کیا گیا۔ انسداد دہشت گردی کی عدالت نے حافظ محمد سعید اور ان کی کالعدم تنظیم کے پروفیسر عبدالرحمان مکی سمیت پانچ اہم رہنمائوں کے خلاف مزید چار مقدمات پر بھی کارروائی شروع کر دی ہے۔ حافظ سعید سمیت ان کی تنظیم کے دیگر رہنمائوں پر غیر قانونی فنڈنگ کے الزام میں دسمبر 2019 میں فرد جرم عائد کی گئی تھی اور اس موقع پر ملزمان نے صحت جرم سے انکار کرتے ہوئے اپنے خلاف الزامات کو بےبنیاد قرار دیا تھا اور دعویٰ کیا تھا کہ یہ الزام عالمی دبائو کی وجہ سے لگایا گیا ہے۔
حافظ محمد سعید سمیت دیگر کے خلاف یہ مقدمہ انسدادِ دہشت گردی کے محکمے نے درج کیا تھا جبکہ انھیں پنجاب کے شہر گوجرانوالہ سے 17 جولائی 2019 کو گرفتار کیا گیا تھا۔


پنجاب کے محکمہ انسدادِ دہشت گردی کے مطابق جماعت الدعو، لشکرِ طیبہ اور فلاحِ انسانیت فائونڈیشن کے معاملات میں بڑے پیمانے پر تحقیقات کا آغاز کیا گیا۔
سی ٹی ڈی پنجاب کے مطابق ‘ان تنظیموں نے دہشت گردی کے لیے اکٹھے کیے جانے والے فنڈز سے اثاثے بنائے اور پھر ان اثاثوں کو استعمال کرتے ہوئے دہشت گردی کے لیے مزید فنڈز جمع کیے۔’ سی ٹی ڈی کا مئوقف تھا کہ ان تنظیموں نے یہ اثاثہ جات مختلف غیر سرکاری تنظیموں یا فلاحی اداروں کے نام سے بنائے اور چلائے۔ ایسے فلاحی اداروں میں دعوت الارشاد ٹرسٹ، معاذ بن جبل ٹرسٹ، الانفال ٹرسٹ، الحمد ٹرسٹ اور المدینہ فائونڈیشن ٹرسٹ شامل ہیں۔
محکمہ انسدادِ دہشتگردی کے مطابق حافظ سعید اور دیگر 12 افراد ‘انسدادِ دہشت گردی کے قانون 1997 کے تحت دہشت گردی کے لیے پیسے جمع کرنے اور منی لانڈرنگ کے مرتکب ٹھہرے ہیں اور ان کے خلاف انسدادِ دہشتگردی کی عدالت میں مقدمات چلائے جائیں گے۔’ سنہ 2014 میں امریکہ نے جماعت الدعو کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کرتے ہوئے مالیاتی پابندیاں عائد کی تھیں۔ امریکی حکام کی جانب سے حافظ سعید کے بارے میں معلومات فراہم کرنے پر ایک کروڑ ڈالر کے انعام کی پیش کش بھی کی گئی تھی۔


اس کے بعد پاکستان کے دفترِ خارجہ نے جنوری 2015 میں اعلان کیا تھا کہ جماعت الدعو سمیت ان تمام دہشت گرد تنظیموں کے اثاثوں کو منجمد کیا جا چکا ہے جن پر اقوامِ متحدہ نے پابندی لگائی ہوئی ہے۔ حافظ سعید کے خلاف ماضی میں ہونے والی کارروائیاں حافظ سعید کو ماضی میں بھی کئی مرتبہ مختلف دورانیوں کے لیے ان کے گھر پر نظربند کیا گیا ہے۔ سنہ 2017 میں 31 جنوری کو انھیں لاہور کے جوہر ٹائون میں واقع ان کے گھر میں خدشہ نقصِ امن کے تحت نظربند کیا گیا تھا۔ مبصرین کے مطابق پاکستان مسلم لیگ نواز کے دور میں یہ کارروائی فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی جانب سے بلیک لسٹ ہونے سے بچنے کے لیے کی گئی تھی۔ انھیں 10 ماہ کے بعد نومبر 2017 میں اس وقت رہا کیا گیا تھا جب لاہور ہائی کورٹ نے ان کی نظر بندی میں توسیع کی درخواست مسترد کر دی تھی۔ اس سے قبل انھیں نومبر 2008 میں ہونے والے ممبئی حملوں کے بعد بھی دسمبر 2008 میں بھی نظربند کیا گیا تھا جب کہ ان کی جماعت کے دفاتر سربمہر کر دیے گئے تھے۔ انڈیا نے ان حملوں کے لیے حافظ سعید اور ان کی جماعت کو ہی ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔ تاہم اس وقت حکام کی جانب سے ان کارروائیوں کی بنیاد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے ان کی تنظیم پر عائد کی گئی پابندی کو قرار دیا گیا تھا۔


حافظ سعید اس سے پہلے سنہ 2006 میں بھی نظربند رہے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے بھی حافظ سعید کی جماعت الدعو کو نہ صرف کالعدم تنظیموں میں شامل کیا بلکہ فلاح انسانیت کو بھی کالعدم قرار دیتے ہوئے ان کے زیر انتظام چلنے والی ایمبولنس گاڑیوں اور ڈسپنسریوں کو بھی بند کر دیا ہے۔ خیال رہے کہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس نے پاکستانی حکومت کی طرف سے دہشت گردی تنظیموں کے خلاف موثر کارروائی کرنے اور ان کی فنڈنگ روکنے کے لیے کیے گئے اقدامات پر مکمل اطمینان ظاہر نہیں کیا اور اس سال اکتوبر تک موثر اقدامات کرنے کا وقت دیا ہے۔

کیٹاگری میں : Uncategorized

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں