6

ارطغرل کے پروڈیوسر پاکستانی فنکاروں کے ساتھ کام کرنے کے خواہشمند

ترک ڈرامہ ‘دیریلیش ارطغرل’ جسے پاکستان میں ‘ارطغرل غازی’ کے نام سے نشر کیا جارہا ہے، مشرق وسطیٰ میں ہی نہیں بلکہ جنوبی ایشیا میں بھی لوگوں کے دلوں میں جگہ بنا چکا ہے پاکستان میں یہ ڈراما اتنا زیادہ مقبول ہوچکا ہے کہ اب اس کے پروٖڈیوسر پاکستانی فنکاروں کے ساتھ مل کر کام کرنے کے خواہشمند ہیں . ترک خبررساں ادارے سے بات کرتے ہوئے ڈرامے کے پروڈیوسر اور اسکرین رائٹر محمد بوزداغ نے کہا کہ مسلمانوں کو صرف سیاست اور تجارت میں ہی اکٹھے کام نہیں کرنا چاہیے بلکہ فن و ثقافت کے لیے بھی شراکت داری کرنا چاہیے، اور سرمایہ کاروں کو فنون لطیہ کے شعبے میں بھی سرمایہ کاری کرنا چاہہیے .

تحریر جاری ہے‎ انہوں نے کہا ‘میں حیران ہوں کہ آج تک ہمارے درمیان کسی قسم کی شراکت داری نہیں ہوئی حالانکہ ہم ایک دوسرے کے بہت اچھے دوست ہیں’. ان کا کہنا تھا کہ مشترکہ پراجیکٹس میں دونوں ممالک کے پروڈیوسرز اور اداکاروں اکٹھے ہونا چاہیے ‘جب ہم میں سے ایک مشکل میں ہوتا ہے تو دونوں ممالک میں اس کا اثر ہوتا ہے، مگر ہمیں اچھے دنوں میں بھی کام کرنا چاہیے اور سنیما کے ساتھ ساتھ پکوان، میوزیم اور تاریخ جیسے شعبوں کے لیے بھی اکٹھے کام کرنا چاہیے’. انہوں نے مزید کہا ‘ہمیں اپنا تجربہ پاکستان سے شیئر کرنا چاہیے اور انہیں اپنے تجربات ہمارے ساتھ شیئر کرنے چاہیے، اکٹھے مل کر ہم دنیا ہلا دینے والے کام کرسکتے ہیں’. محمد بوزداغ نے کہا کہ انہیں توقع تو تھی کہ یہ سیریز پاکستان میں توجہ حاصل کرے گی مگر یہ کبھی نہیں سوچا کہ اتنے کم وقت میں ایسا ہوجائے گا. انہوں نے کہا کہ وہ پاکستان میں اس ڈرامے کی مقبولیت پر بہت زیادہ خوش ہیں ‘اگرچہ ترکی اور پاکستان کی سرحدیں الگ ہیں، مگر ہماری روحیں ایک قوم ہیں’. ڈراما بنانے کا خیال کیسے آیا؟ تاریخ میں ڈگری

حاصل کرنے کے بعد محمد بوزداغ کو ایک ایسے ڈراما بنانے کا خیال آیا جس میں دکھایا جائے کہ سلطنت عثمانیہ کی بنیاد کیسے رکھی گئی. انہوں نے بتایا ‘اس تصور کو ذہن میں رکھ کر 5 سیزن کی کہانی تیار ہوئی اور اب وہ کورلش عثمان کی شکل میں جاری ہے’. ان کا کہنا تھا کہ آج اسلامی دنیا مذہب کی روح، انسانیت اور انصاف کی کمی محسوس کررہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہر ایک اس دور کو جاننا چاہتا ہے. یہ ڈراما پہلے ترکی میں مقبولیت کے ریکارڈ بناتا رہا اور پروڈیوسر نے دعویٰ کیا کہ جب اسے بیرون ملک نشر کیا گیا تو متعدد افراد نے اسلام قبول کرلیا. اس ڈرامے کو نشر کرنے سے پہلے اس کی تیاری پر ایک سال تک کام ہوتا رہا جبکہ اداکاروں کو ان کے کرداروں کے لیے 9 ماہ تک تربیت دی گئی. محمد بوزداغ کے مطابق ‘جب ہم نے پراجیکٹ پر کام شروع کیا تو ہمیں تربیت یافتہ گھوڑے نہیں مل سکے جو ایک ساتھ دوڑ سکے، خیمے موجود نہیں تھے اور 13 ویں صدی میں لوگوں کی غذا کے بارے میں زیادہ علم نہیں تھا، جب میں اس کی کہانی تحریر کررہا تھا تو میری عمر 30 سال تھی، کمپنی نئی تھی اور کسی کو بھی پراجیکٹ پر یقین نہیں تھا.

جب میں نے کہانی لکھ لی تو ہم نے ایک مصور کو منگولیا سے مدعو کیا اور انہوں نے کہانی کی عکسبندی کی، اور اس طرح اداکاروں نے پراجیکٹ کو دیکھا اور اس پر یقین کیا’. انہوں نے تسلیم کیا کہ اس عہد کے حقائق زیادہ واضح نہیں تھے اور اس خلا کو بھرنے کے لیے تخیل کا استعمال کیا گیا ‘مگر اس دوران بھی اس عہد کے حقائق اور اسلام کی روح کو نظرانداز نہیں کیا گیا، دنیا بھر میں تاریخی ڈرامےایسے ہی بنتے ہیں، ہم پہلے ایسے نہیں جنہوں نے اس طریقہ کار کو استعمال کیا’. یہ کام ہولی وڈ یا بولی وڈ کے لیے نہیں کیا انہوں نے مزید کہا کہ اس ڈرامے کو مغرب، اسلام فوبیا یا دیگر کا ردمل نہیں ‘میں اسے ہولی وڈ یا بولی وڈ یا اسلام سے نفرت کرنے والوں کے لیے نہیں بنارہا’. ان کا کہنا تھا ‘ہمیں اسلامی فنون اور اسلامی دنیا کی دوبارہ وضاحت کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ تاج محل سے الحمرا تک فنون اور تاریخ اعلیٰ ترین مثالیں ہیں، آج ہمیں پوری دنیا کو اسلام کی خوبصورت آواز سے آگاہ کرنا چاہیے’. انہوں نے بتایا کہ اس ڈرامے کے سیٹ پر 25 ممالک کے حکمران آئے تھے.پروڈیوسر کا کہنا تھا کہ ترک ڈراموں کی مقبولیت کی وجہ یہ ہےک ہ یہاں کے لوگ جانتے ہیں کہ جذبات کا اظہار کیسے کیا جاتا ہے اور اسے فلموں اور ڈراموں میں اپنایا گیا ہے. انہوں نے مزید کہا کہ ایک ہزار سے زائد افراد کے ساتھ کام کرنا آسان نہیں ہوتا بلکہ ہر طرح کی مشکلات کا سامنا کرکے آگے بڑھنا ہوتا ہے ‘ایک دن میرا بیٹا بہت بیمار ہوگیا اور ہم اسے ایمرجنسی سروسز میں لے گئے، مگر وہاں بھی میں نے اسکرپٹ پر کام جاری رکھا، میں روزانہ 20 گھنٹے کام کرتا ہوں’.

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں