10

سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ قومی خزانے پر ماہانہ 70ارب کا بوجھ پڑے گا
اضافے سے پنشن کی مد میں سالانہ 150ارب روپے اضافی بوجھ پڑے گا،خالی خزانہ پر مزید بڑا بوجھ
سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کی وجہ سے قرضوں کی ادائیگیوں میں تاخیر اور آئی ایم ایف سے قسط پر منفی اثر پڑے گا

اسلام آباد (محمد جواد بھوجیہ) وفاقی حکومت نے بالاآخر سرکاری ملازمین کیسامنے گھٹنے ٹیک دیے ہیں اور سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 25فیصد اضافہ کی منظوری دے دی ہے جہاں اس حکومتی اقدام کو لے کر سوشل میڈیا پر عوام مشتعل دکھائی دیتی ہے وہیں دوسری طرف اس اقدام کی قیمت بھی غریب عوام کے ٹیکس کے پیسے سے ہی ادا کی جائیگی جوہروقت انہی سرکاری ملازمین کے ہاتھوں ہر جگہ ذلالت اٹھاتی ہے جن کی تنخواہوں کی تمام تر رقم انہی غریب عوام کے ٹیکس سے ہی ادا کی جاتی ہے۔حکومت کی جانب سے کیے گئے اضافے سے پہلے سے ہی دباو کا شکار اور خالی خزانہ پر انتہائی منفی اثر پڑے گا،حکومت کی طرف سے کیے گئے اضافے کے مطابق اب ہر ماہ ان سرکاری ملازمین کو ہر 70ارب روپے اضافی دینے پڑیں گے صرف یہی نہیں یہ اضافہ بنیادی تنخواہ میں کیا گیا ہے جس سے ہر سال پنشن کی مد میں ان ملازمین کو حکومت کی طرف سے 150ارب روپے سے زائد ادا کرنے پڑیں گے۔جہاں ایک طرف بیمار معیشت پر اتنا بڑابوجھ پڑے گاوہیں دوسری طرف اتنے بڑے اضافے کے بعد اندرونی اور بیرونی قرضوں کی ادائیگیاں تاخیر کا شکار ہونگی۔ آئی ایم ایف سے مزید اقساط کے لیے پاکستان کی درخواست رد بھی کی جاسکتی ہے کیونکہ آئی ایم ایف پہلے ہی پاکستان کی بیمار معیشت کو سنبھالا دینے کے لیے مذاکرات میں یہ شرط اول رکھتا ہے کہ سرکاری ملازمین کی پنشن اور تنخواہوں کے اس بوجھ سے خزانہ کو مزید متاثر نہ کیا جائے کیونکہ اس سے پڑنے والے قومی خزانہ پر بوجھ سے ادائیگیوں میں تسلسل بری طرح متاثر ہوتا ہے۔ عوام میں اس پورے اضافے کو لیکر نئی بحث نے جنم لیا ہے کہ سرکاری ملازمین کو بوجھ اب عوام مزید کسطرح برداشت کریں جہاں عوام کو ملنے والی سہولیات صفر ہیں سرکاری دفاتر میں کام کی رشوت اور کام نہ کرنے کی تنخواہیں وصول کرتے سرکاری بابو اب کیا اتنے بڑے اضافہ کے بعد اپنی ذمہ داروں کا بھی احساس کریں گے اور اس عوام کا بھی کچھ سوچیں گے جو ان کی تنخواہوں رہائشوں،ڈیزل پٹرول سے لیکر ٹی اے اینڈ ڈی اے تک کے اخراجات بخوشی ادا کرتے ہیں۔۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں